پاکستان

”خارجہ پالیسی ڈرون حملوں کی بنیاد پر تشکیل نہیں دی گئی“

دفترخارجہ کی ترجمان نے کہا کہ ہم تنگ نظری کے تحت کسی ایک معاملے کے اردگرد خارجہ پالیسی کو محدود نہیں رکھنا چاہتے۔

اسلام آباد: پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کل بروز جمعرات چھبیس دسمبر کو بطورِ خاص امریکا کا نام لیے بغیر کہا کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ ہفتے ایک قرارداد میں کہا تھا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کو پیش نظر رکھا جائے، اس کے باوجود ملک کے خارجہ تعلقات پر ڈرون کے معاملے کا سایہ نہیں پڑے گا۔

تاہم افغانستان کے حوالے سے امریکا کے ساتھ تعاون پر دفترِ خارجہ نے کہا کہ یہ ہمسایہ ملک کے اندر مستقبل میں امریکا کی موجودگی پر انحصار کرے گا۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ہفت وار بریفنگ کے دوران کہا کہ ”ہم اس حوالے سے بہت واضح مؤقف رکھتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی محض ڈرون حملوں کی بنیاد پر تشکیل نہیں دی گئی ہے، اور نہ ہی ہمارے تعلقات صرف ایک ملک کے ساتھ ہیں۔یہ ایک وسیع میدانِ عمل ہے۔ ہمارے اپنے قومی مفادات ہیں، اور ہم بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینے اور پاکستان میں اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے بہت سے طریقہ کار پر کام کررہے ہیں۔ ہم تنگ نظری کے تحت کسی ایک معاملے کے اردگرد اپنی خارجہ پالیسی کو محدود نہیں رکھنا چاہتے۔“

تسنیم اسلم کا یہ تبصرہ بظاہر دفترِ خارجہ کے پچھلے مؤقف کے برعکس محسوس ہوتا ہے، جس میں کہا گیا تھا، کہ ”ڈرون حملے دونوں ممالک (امریکا اور پاکستان) کے خوشگوار اور تعاون پر مبنی تعلقات کی باہمی خواہش پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔“

یہ موقف گزشتہ یکم نومبر کے بیان میں سامنے آیا تھا، اور ڈرون پر بعد کے بیانات میں یہ مؤقف ظاہر نہیں کیا گیا تھا، اگرچہ ان حملوں کی رسمی مذمت کی گئی تھی۔

میران شاہ پر ہوئے حالیہ ڈرون حملے اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ڈرون پر ایک قرارداد کی منظوری کے بعد دفترِ خارجہ کے بیان سے ڈرون حملوں پر حکومتی مؤقف میں ممکنہ نرمی ظاہر ہوتی ہے۔

تاہم تسنیم اسلم نے ان حملوں پر پالیسی مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ”حکومت جمعرات کی رات کو شمالی وزیرستان میں ہوئے حملے کو پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ”مسلسل یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ڈرون حملے غیر تعمیری ہیں، معصوم شہروں کی جانوں اور انسانی حقوق کے زیاں کا سبب اور انسانیت پسندوں کے لیے باعث تشویش۔ اس طرح کے حملوں نے بین الریاستی تعلقات کے حوالے سے خطرناک مثالیں بھی قائم کی ہیں۔“

انہوں نے یہ بھی حوالہ دیا کہ ڈرون حملوں کے خلاف بین الاقوامی اتفاق رائے موجود ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

افغانستان کے حوالے سے امریکا کے ساتھ تعاون کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مستقبل میں امریکاافغانستان میں موجودگی کے بارے میں تاحال واضح نہیں ہوسکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ”یہ افغانستان میں ہونے والے واقعات پر منحصر ہے، اور 2014ء کے بعد امریکا اپنی کس طرز کی موجودگی کو برقرار رکھے گا۔“

ہندوستان: حکومت کا یہ دعویٰ کہ کشن گنگاڈیم کے بارے میں بین الاقوامی عدالت کا فیصلہ ایک فتح تھا، سے پیچھے ہٹتے ہوئے تسنیم اسلم نے کہا کہ وہ اسے نہ تو پاکستان کے لیے اور نہ ہندوستان کے لیے فتح قرار دیں گی۔

انہوں نے کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس پر عملدرآمد کس طرح کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس کی روح اور خطوط کے مطابق عمل کریں۔ سات سالوں میں ہم نے دیکھیں گے کہ چیزیں کس طرح کام کرتی ہیں۔میں اس رویے کی تائید نہیں کروں گی کہ ہر معاملے میں فتح یانقصان دعویٰ کیا جائے۔“

یاد رہے کہ اس سے قبل ثالثی عدالت نے کشن گنگا ڈیم کے پانی پر پاکستان کے حق کو تسلیم کیا تھا اور پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے اس کو پاکستان کی ایک بڑی فتح قرار دیا تھا۔

سارک اجلاس کے موقع پر پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے تجارت کے آئندہ اجلاس کے بارے میں دفترخارجہ کی ترجمان نے کہا کہ اس میں کامرس سیکریٹریوں کی جانب سے ستمبر 2010ء میں آزادانہ تجارت پر اتفاق رائے پر پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ”مذاکرات میں تعطل کی وجہ سے آزادانہ تجارت کی جانب بڑھنے کا یہ عمل بُری طرح متاثر ہوا تھا۔ اس اجلاس کے موقع پر یہ وزراء اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اس ضمن میں کیا کیا جاسکتا ہےاور مستقبل کے لیے ایک روڈ میپ تیار کریں گے۔“

چین: چین کے ساتھ جوہری تعاون کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں تسنیم اسلم نے کہا کہ یہ پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور مکمل طور پر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی نگرانی کے علاوہ دونوں فریقین بین الاقوامی معاہدوں کی تعمیل کررہے ہیں۔