عام آدمی پارٹی ریاست دہلی کی حکومت بنائے گی
نئی دہلی: بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑنے والے اروند کجریوال نے آج بروز پیر کو یہ اعلان کیا کہ وہ نئی دہلی کی ریاستی حکومت کی سربراہی کریں گے۔ اے ایف پی کے مطابق ان کی اس اعلان سے عام انتخابات سے محض چند ماہ پہلے ہی ان کی نوخیز پارٹی کو لیے ایک شاندار پیش رفت ملی ہے۔
گزشتہ دنوں ریاستی انتخابات میں کسی پارٹی کو اکثریت نہیں حاصل ہوسکی تھی۔ جس کی وجہ سے حکومت بنانے کے لیے ایک تعطل پیدا ہوگیا تھا ۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی میں اپنے حامیوں کے ”ریفرنڈم“ کے بعد حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔
کانگریس اور بی جے پی نے جہاں عام آدمی پارٹی کو رسمی طور پر نیک خواہشات کا پیغام دیا ہے۔ وہیں سماجی کارکن انا ہزارے نے اس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
عام آدمی پارٹی نے کہا ہے کہ وہ گورنر سے درخواست کریں گے کہ کیا جنتر منتر پر حکومت کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہو سکتی ہے ۔
حکومت بنانے کا رسمی اعلان کرنے کے بعد اروند کجریوال گورنر سے ملنے دہلی جا رہے ہیں۔
سبکدوش ہونے والی وزیر اعلٰی شیلا ڈکشت نے عام آدمی پارٹی کو مبارک دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی پارٹی نے لوگوں سے ایسے وعدے کیے ہیں جنہیں پورا نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن اگر انہیں یقین ہے تو وہ ضرور انہیں پورا کرکے دکھائیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ عام آدمی پارٹی کو دی گئی حمایت غیر مشروط نہیں ہے۔
اُدھر بی جے پی لیڈر ہرشوردھن نے کہا کہ ان کے لیےعام آدمی پارٹی کا فیصلہ نیا نہیں ہے کیونکہ اس کی زمین پہلے سے ہی تیار کی جا رہی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی پارٹی نے بدعنوانی سے لڑنے کی بڑی بڑی باتیں کی، لیکن انہوں نے اقتدار کے لیے اپنے سارے وعدوں سے سمجھوتہ کر لیا ہے ۔
انہوں نے کہا ، ”دہلی میں جو حکومت بننے جا رہی ہے، وہ دہلی کے عوام سے دھوکہ ہے کیونکہ عوام نے کانگریس حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اس کو مسترد کر دیا تھا، اور اسی کے ساتھ اب کجریوال حکومت جا رہے ہیں ۔“
لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عام آدمی پارٹی کو مبارک باد بھی دی۔
70 ارکان پر مشتمل اسمبلی میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں کو 32 سیٹیں ملیں جبکہ 28 سیٹوں کے ساتھ عام آدمی پارٹی دوسرے اور آٹھ سیٹوں کے ساتھ کانگریس تیسرے مقام پر رہی ۔ دہلی میں حکومت بنانے کے لیے 36 ممبران اسمبلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
عام آدمی پارٹی نے کانگریس اور بی جے پی کی مخالفت کے نعرے کے ساتھ سیاست کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ انتخابات کے بعد کانگریس کی حمایت لینے سے ہچکچا رہی تھی۔
چنانچہ عام آدمی پارٹی نے حکومت بنانے پر کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے عوام سے رائے طلب کی۔ عام آدمی پارٹی کا کہنا ہے کہ اس ریفرنڈم میں لوگوں نے حکومت کے حق میں رائے دی ہے۔
تاہم اس کے سیاسی حریفوں کے ساتھ ساتھ سیاسی مبصرین کی نظریں بھی اس بات پر ٹکی ہے کہ عام آدمی پارٹی نے دہلی میں تمام جھگیوں کو باقاعدہ کرنے، بجلی کی قیمت 50 فیصد کم کرنے اور ہر خاندان کو ہر دن 700 لیٹر پانی دینے کے جو وعدے کیے ہیں ، انہیں وہ کس طرح پورا کرے گی۔ پھر بھی ، اپنے قیام کے ایک سال کے اندر اندر عام آدمی پارٹی کی کامیابی کو کسی معجزہ سے کم نہیں سمجھا جا رہا ہے ۔
اپنے ریفرنڈم کے دوران عام آدمی پارٹی کی طرف سے بیانات آتے رہے ہیں کہ عوام چاہتی ہے کہ دہلی میں ان کی حکومت بنے۔ لیکن حکومت بنانے کے لیے عام آدمی پارٹی کو اسی کانگریس کی حمایت کی ضرورت پڑے گی جس کی مخالفت پر اسے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
عام آدمی پارٹی نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ اس معاملے میں اپنا آخری فیصلہ پیر کو دے گی اور اس کا فیصلہ عوامی رائے پر مبنی ہوگا۔
ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں اس طرح کے ریفرنڈم کی مثال نہیں ملتی۔ شاید قدیم یونان میں ریفرنڈم کا انعقاد اسی طرح ہوتا ہوگا جس روایت کے نتیجے میں آج کی جمہوریت نے جنم لیا۔ اتوار کو کجریوال نے پُرجوش انداز میں پوچھا ”جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہماری پارٹی دہلی میں حکومت نہ بنائے ، وہ ہاتھ اٹھائیں ۔“
انہوں ہاتھوں کو گننا شروع کیا، لیکن 20 ہاتھ بھی نہ اٹھے تھے۔ تاہم جب انہوں نے اجتماع سے پوچھا کہ وہ لوگ ہاتھ اٹھائیں چاہتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی حکومت بنائے تو وہاں موجود بھاری اکثریت نے جوش میں ہاتھ بلند کیے اور زوردار انداز میں کہا ”عام آدمی پارٹی حکومت بنائے ۔“ اس کے بعد کجریوال کافی خوش نظر آ رہے تھے اور عوام میں بھی کافی جوش میں دکھائی دے رہا تھا ۔
کجریوال نے لودھی کالونی کی اس جلسے کی طرح تمام جلسوں میں یہی عمل دہرایا اور تمام جلسوں میں لوگوں کی خواہش یہ تھی کہ کجریوال کو حکومت بنانی چاہئے۔