آخر جمود ٹوٹا
نوعیت کے اعتبار سے عارضی سہی لیکن اس کے باوجود، کوئی شک نہیں کہ یہ ایک اچھی پیشرفت ہے۔ ایران اور دیگر پانچ مغربی ممالک کے درمیان، اتوار کو جنیوا میں طے پانے والے معاہدے کی رُو سے، اگرچہ تہران کا ایٹمی پروگرام ختم تونہیں ہوگا البتہ رفتار سست کرنے کے بدلے، تہران کو عالمی اقتصادی پابندیوں میں کچھ نرمی ضرور ملے گی۔
یہ معاہدہ تاریخی ہے جو مستقبل میں مغرب کے ساتھ ایران کے تعلقات کا مستقبل طے کرے گا۔ سب سے اہم یہ امکان کہ معاہدہ جاری رہے گا، وجہ یہ کہ تمام فریقین نے اسے خوش آمدید کہا ہے۔
اگرچہ صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکتا ہے تاہم مذاکرات کرنے والے ایرانی نمائندے محمد جاوید ظریف نے واضح کیا کہ عمل کا وعدہ کیا ہے، جو معاہدے پر عمل درآمد سے منسلک ہے، بصورتِ دیگر یہ 'پلٹ' بھی سکتا ہے، امید یہی ہے کہ تہران اس آپشن کا استعمال نہیں کرے گا۔
علاوہ ازیں، سب سے اہم بات جناب ظریف کا یہ کہنا تھا کہ معاہدہ ایران اور مغرب کے درمیان اعتماد کی بحالی ثابت ہوگا۔ ایرانی صدر حسن روحانی کی یہ ایک بہت بڑی سفارتی فتح ہے جو روحانی پیشوا علی خامنائی کی رضامندی کے بغیر ممکن نہ تھی، اب یہ حمایت ملک کے اندر سخت گیر عناصر کا مقابلہ کرنے کے واسطے مددگار ہوگی۔
معاہدہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے ایک بڑے حصے کو روکتا ہے اور اس مدت میں بھی کمی کرتا ہے جو ایٹمی ہتھیار کی تیاری کے واسطے تہران کو درکار ہوگی۔ یہ پابند کرتا ہے کہ پانچ فیصد سے زیادہ یورنیم افزودہ نہیں کی جائے گی اور مقررہ حد سے زیادہ افزودہ یورنیم کے موجود ذخائر کو بے اثر بنادیا جائے گا۔
اسی طرح معاہدہ، تہران کو آراک ایٹمی پلانٹ پر مزید پیشرفت نہ کرنے کا پابند کرتے ہوئے، پلوٹونیم کی پیداواری صلاحیت ختم کرنے کو کہتا ہے۔اس پر کوئی شبہ نہیں کہ معاہدے پر عمل کی احتیاط سے نگرانی ہوگی تاہم تہران نے معائنہ کاروں کو ایٹمی پلانٹس تک وسیع پیمانے پر،اور ضروری ہوا تو روزانہ کی بنیاد پر معائنے کی خاطر بھی، رسائی دینے کا وعدہ کیا ہے۔
جہاں تک اُن کا تعلق ہے تو مغرب اگلے چھ ماہ پر مشتمل نگرانی کے دورانیے میں، ایران پر مزید کوئی نئی پابندیاں عائد نہیں کرے گا۔ حالانکہ دنیا بھر میں تیل پیدا کرنے والے چوتھے بڑے ملک کے لیے اس رقم کی کوئی خاص اہمیت نہیں، پھر بھی اس مدت کے دوران تہران کو پابندیوں سے سات ارب ڈالر کی نرمی بھی دی جائے گی۔
اسرائیل نے اس معاہدے کو 'ایک تاریخی غلطی' قرار دیا جبکہ خلیج کی بعض شاہی ریاستوں نے بھی منفی ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ خود صدر اوباما کو بھی کانگریس سے معاہدے کی منظوری حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن چھ ماہ تک کی جانے والی نگرانی سے نتائج سامنے آنے چاہئیں اور تنقید کا خاتمہ ہوجانا چاہیے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو جنیوا معاہدے سے پاک ۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر پیشرفت کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ امریکی دباؤ کے باعث منصوبےکو غیر ضروری تعطل کا سامنا تھا۔
اب جبکہ جمود ٹوٹ چکا تو اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ منصوبے کو نہایت سنجیدگی سے لے اور پاکستانی سرزمین پر اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر کرنے کی خاطر ٹھوس اقدامات کرے۔
پاکستان کا توانائی بحران سنگین ہوچکا، ایرانی گیس کی بروقت فراہمی، ملک میں طلب اور رسد کے درمیان فرق کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔