دنیا

افغان امریکا معاہدہ: پاکستان کے خلاف کارروائی کا معاملہ خارج

امریکا نے افغان حکام کا یہ مطالبہ مسترد کردیا کہ وہ افغانستان پر خصوصاً پاکستان کی بیرونی جارحیت کا عسکری جواب دے گا۔

واشنگٹن: امریکا اور افغانستان کے درمیان ایک دوطرفہ سیکیورٹی کے معاہدے میں افغانستان کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا کہ دیگر ملکوں خصوصاً پاکستان کی فوجی جارحیت کے خلاف مشترکہ فوجی کارروائی کی جائے۔

افغان وزارت خارجہ کی سرکاری ویب سائٹ پر شایع کیے گئے معاہدے کے ایک ڈرافٹ میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ امریکا کو کسی بیرونی جارحیت پر ”گہری تشویش“ ہوگی اور 2014ء کے بعد وہ افغانستان کے خلاف فوجی خطرات یا قوت کے استعمال کی سختی سے مذمت کرے گا۔

امریکا کا منصوبہ ہے کہ وہ اپنی فوج کا بڑا حصہ 2014ءتک افغانستان سے نکال لے گا۔ دوطرفہ معاہدے کے تحت آٹھ ہزار سے بارہ ہزار امریکی فوجی 2024ء تک افغانستان میں موجود رہیں گے۔وہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں اورباغیوں کی تلاش کے عمل میں حصہ لیں گے، اور افغانستان کی دفاعی افواج کو تربیت بھی دیں گے۔

جب سیکیورٹی معاہدے پر مذاکرات شروع ہوئے تو صدر حامد کرزئی نے ایک مکمل دفاعی معاہدے کا مطالبہ کیا، جس کے تحت امریکا دیگر اقوام خصوصاً پاکستان کی جارحیت کا عسکری انداز میں جواب دینے کا پابند ہو۔

اگرچہ ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک ”بیرونی جارحیت پر مشترکہ ردّعمل کے اظہار کے حوالے سے مشورہ کرنے پر رضامند ہیں۔“ یہ افغان مطالبہ شامل نہیں ہے۔

بدھ کی رات امریکی وزیرِ خارجہ جان ایف کیری نے واشنگٹن میں اعلان کیا تھا کہ امریکا اور افغانستان سیکیورٹی کی شراکت داری کے ایک معاہدے تک پہنچ گئے ہیں، جو امریکی افواج کو 2014ء کے بعد افغانستان میں قیام کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن انہوں نے اس کی تفصیلات ظاہر کرنے سے انکار کردیا۔

جان کیری نے واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران بتایا کہ ”جیسا کہ ہم آج رات بات کررہے ہیں، اور ہم اس معاہدے کے مندرجات پر متفق ہیں، جو ایک لویا جرگہ میں پیش کیا جائے گا، اور یہ ان کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تمام یا کسی تفصیلات پر تبصرہ کرنا میرے لیے مناسب نہیں ہوگا۔ یہ افغان عوام پر منحصر ہے۔“

وزیرِ خارجہ جان کیری نے ایک سینیئر افغان اہلکار کے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا کہ امریکی صدر بارک اوبامہ نیٹو کے فوجی حملوں کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں پر افغان عوام سے معافی مانگنے پر راضی ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر کرزئی نے جان کیری کے ساتھ منگل کو بات کرتے ہوئے معافی کا مطالبہ کیا تھا،اور امریکی وزیرِ خارجہ نے ان کی درخواست کو قبول کرلیا تھا۔

جان کیری نے کہا کہ ”صدر کرزئی نے معافی کے بارے میں بات نہیں کی تھی۔ اس وقت معافی کے حوالے سے کوئی بحث نہیں ہوئی تھی۔ میرا مطلب ہے کہ یہ معاملہ اس وقت بات چیت کے دوران سامنے ہی نہیں آیا تھا۔“

حالانکہ امریکی وزیرخارجہ نے اس معاہدے کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں، لیکن امریکی میڈیا نے جمعرات کے روز انتظامی اہلکاروں کا نام لیے بغیر ان کے حوالے سے کہا کہ آٹھ ہزار سے بارہ ہزار کی زیادہ سے زیادہ تعداد میں امریکی فوجی 2024ء تک افغانستان میں موجود رہیں گے۔

میڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ”یہ مذاکرات کے دوران آخری ایسا نکتہ تھا جو آگے بڑھنے میں رکاوٹ بنا رہا“ لیکن جب واشنگٹن نے یہ واضح کیا کہ وہ اپنی افواج افغانستان میں بغیر کسی ضمانت کے تعینات کرے گا، تو افغان حکام نے امریکی مطالبے کو تسلیم کرلیا۔

اگرچہ افغان حکومت نے پہلے امریکی فوجیوں کو سرچ آپریشن اور گرفتاریاں کرنے کی اجازت دینے کی مطالبے کو مسترد کردیا تھا، لیکن افغانستان کی سرکاری ویب سائٹ پر شایع کیے جانے والے معاہدے کے مسودے میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ انہیں ان دونوں کی اجازت دی گئی ہے۔

تاہم امریکا نے یہ واضح کردیا کہ دوطرفہ سیکیورٹی معاہدے کے بغیر افغانستان کو دی جانے والی اربوں ڈالرز کی سالانہ ترقیاتی اور فوجی امدادخطرے میں پڑ جارئے گی۔

نیٹو کے دیگر ممالک کا بھی کہنا ہے کہ وہ 2014ء کے بعد افغانستان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کریں گے، جبکہ بعض امدادی ایجنسیاں شاید سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اپنی کارروائیوں میں کمی کردیں گی۔

ڈرافٹ کے مطابق امریکا نو فوجی اڈّوں پر اپنی افواج تعینات کرنے کا حق رکھتا ہے، جس میں بگرام اور قندھار میں دو بڑے ہوائی اڈاے شامل ہیں۔ امریکی فوجی طیارے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈّے سمیت افغانستان کے سات ہوائی اڈوں سے پرواز اور لینڈکرسکیں گے ۔

امریکی افواج پانچ سرحدی راستوں کے ذریعے سامان کی نقل و حمل کرسکتی ہیں، ساتھ ہی یہ وضاحت کی گئی ہے کہ یہ ہوائی اڈے سامان کے لادنے اور اتارنے کے باضابطہ پوائنٹس ہیں۔