نوازشریف وزرائے خارجہ و دفاع کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھیں گے
اسلام آباد: وزیرِ اعظم نواز شریف اپنے اقتدار کے بعد ابتدائی عرصے میں وزارتِ داخلہ اوروزارتِ دفاع کے اہم اور حساس قلمدان اپنے پاس ہی رکھیں گے۔
منگل کے روز ان کے قریبی ذرائع نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ وہ عسکری قیادت سے بہتر ورکنگ پارٹنر شپ قائم کرنا چاہتے ہیں۔
نواز شریف کو 1999 میں سابق صدر ، جنرل (ر) کی جانب سے اقتدار سے بے دخل کردیا گیا تھا۔ اس سال گیارہ مئی کے عام انتخابات میں ان کی جماعت ، پاکستان مسلم لیگ۔ نواز ( پی ایم ایل ۔ این) نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی جس سے تیسری مرتبہ ان کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وزیرِ اعظم بننے کے بعد اپنی کابینہ میں وزیرِ خارجہ و دفاع کا تقرر نہیں کریں گے اور اس کی جگہ طارق فاطمی کا خارجہ امور کیلئے بطور مشیر تقرر کریں گے، جو سابقہ سول سرونٹ اور امریکہ و یورپ کیلئے سفیر رہ چکے ہیں۔
پاکستانی تاریخ کے نصف عرصے تک یہاں فوج کا اقتدار رہا ہے۔ ناقدین اور تجزیہ کاروں کا اصرار ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد نہیں رہی اور اس پر ہمیشہ عسکری قیادت کا اثر و غلبہ رہا ہے۔
وزیرِ خارجہ کا تقرر نہ کرنے کے متعلق یہی کہا جارہا ہے کہ وہ حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات پر اپنی گرفت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
' ضروری ہے کہ آنے والی حکومت اور فوج اہم خارجہ امور پر یکساں مؤقف رکھتے ہوں ، کم ازکم افغانستان، انڈیا اور امریکہ کے معاملے پر ،' پی ایم ایل ۔ این کے ایک اہم رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا۔
امریکہ چاہتا ہے کہ اس کا ساتھی ہونے کے ناطے پاکستان 2014 میں افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی کے بعد افغان طالبان کو قابو میں رکھنے میں مدد کرے۔ دوسری جانب روایتی حریف ہندوستان سے تعلقات بھی قدرے اہمیت رکھتے ہیں۔
پھر جانب پاکستان کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے جن میں توانائی کا بحران، دہشتگردی، بے روزگاری ، غربت اور دیگر چیلنجز شامل ہیں۔
عسکریت پسند نہ صرف پاکستان کے لئے ایک مشکل چیلنج بنے ہوئے ہیں بلکہ ان کی کارروائیاں پڑوسی ملک افغانستان میں بھی جاری رہتی ہیں۔
' چاہے مغربی ممالک کی تائید سے طالبان سے مذاکرات ہوں یا ہندوستان کا معاملہ، جب تک (متفقہ طور پر) حکومت واضح حکمتِ عملی اختیار نہیں کرلیتی اس وقت تک وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہیں گے،' اسی اندرونی زریعے نے بتایا۔
واضح رہے کہ الیکشن مہم کے آخری دنوں میں نواز شریف نے بھرپور انداز میں کہنا شروع کردیا تھا کہ وہ وہ دہشتگردی کیخلاف امریکی جنگ میں کئی نقائص دیکھتے ہیں۔ ان کے اس بیان کے بعد باہمی تعلقات کے بارے میں ان کی ممکنہ سمت کے متعلق کئی سوالات اٹھائے جاتے رہے تھے۔
پی ایم ایل این کے ایک اور زریعے نے بتایا کہ (نیٹو) افواج کے انخلا کے بعد امریکہ، افغانستان اور انڈیا کو برتنا ایک بہت مشکل مرحلہ ہوگا۔
' ابھی نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس نازک کام کیلئے موزوں ترین ہیں۔ وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں کوئی بھی شخص یہ معاملات خراب کرے۔ '