• KHI: Fajr 5:07am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:29am Sunrise 5:51am
  • ISB: Fajr 4:31am Sunrise 5:55am
  • KHI: Fajr 5:07am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:29am Sunrise 5:51am
  • ISB: Fajr 4:31am Sunrise 5:55am

مائیں کہاں ہیں؟

شائع May 21, 2013

mother 670
فائل فوٹو --.

جب سندھ میں ایک نئی حکومت مسند اقتدار سنبھالے گی اسکے سامنے ایک اختراعی نوعیت کی بصیرت آمیز دستاویز ہوگی جسکے ذریعہ اسکو اختیارات سونپے گئے ہیں-

اس دستاویز میں صوبے میں سرکاری پالیسیوں کیلئے جنس پر مبنی رہنما اصول پیش کئے گئے ہیں- سندھ ویمن ڈیویلپمنٹ ڈپارٹمینٹ کی جانب سے انتخابات سے صرف دو دن پہلے پیش کی جانے والی یہ دستاویز انتہائی بروقت تھی جس میں عورتوں کو بااختیار بنانے کیلئے صوبائی پالیسی پیش کی گئی تھی-

اس پالیسی کا پیش کیا جانا انتہائی بروقت تھا کیونکہ عورتوں کے حقوق کے تعلق سے اس قسم کے اقدامات کیلئے پاکستان کے سرکاری حلقوں کی جانب سے کافی مدد اور حمایت درکارہوتی ہے- یہ حمایت مکمل طور پر حاصل تھی- ایسا ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ نگران حکومت میں عورتوں اور انسانی حقوق کا عہدہ انسانی حقوق کی ایک دیرینہ علمبردار خاتوں انیس ہارون کے پاس تھا جنہوں نے عورتوں کی تحریک میں بے مثال کردار ادا کیا ہے-

اس پالیسی دستاویز میں ایک دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کی گئی ہے- اس دستاویز میں ایک خاکہ پیش کیا گیا ہے اور حکومت کے تمام شعبوں سے توقع کی گئی ہے کہ وہ اس کے اندر رہتے ہوئے کام کرینگے- بجائے اس کے کہ ہر شعبہ کے دروازوں کو کھٹکھٹانے کا چکردار راستہ اختیار کیا جائے اس میں رہنما اصول پیش کردئیے گئے ہیں جن پر تمام شعبوں کو عمل کرنا ہوگا- چنانچہ یہ امید کی گئی ہے کہ عورتوں کو بااختیار بنانے کا ایک "نظام" قائم ہو جائیگا اور ایسا ماحول پیدا ہوگا جس میں عورتوں کو مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہونگے جن کے ذریعہ وہ تمام میدانوں میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو مکمل طور پر استعمال کرسکیں گی-

اس دستاویز کا ایک اور اہم مقصد "تمام ترقیاتی کاموں اور نظام حکومت میں عورتوں کے نقطہء نظر سے انہیں قومی سطح میں شامل کرنا ہے"-

یہ تمام مقا صد قابل قدر ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ اس دستاویز کو تیار کرنے والے اپنے مقا صد میں کامیاب ہوں-

ہمارے پدر سری معاشرے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ مردوں کو، خاص طور پر پالیسی سازوں کو خواہ ان کا رویہ عورتوں کی جانب دوستانہ ہی کیوں نہ ہو، عورتوں ----اور ساتھ ہی بچوں کو---- کی ضروریات اور انکے نقطہ ہائے نظر کا احساس دلانا پڑتا ہے-

کئی سال پہلے ریٹائرڈ جسٹس ناصر اسلم زاہد نے جو 1996 - 97 میں کمیشن آف انکوائری فار ویمن کے سربراہ تھے مجھے بتایا کہ اس وقت تک انہیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ مختلف قانونی معاملات کے تعلق سے عورتوں کا نقطہء نظر کچھ اور بھی ہو سکتا ہے-

وہ وزارت قانون میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے تھے اور انہیں یقین تھا کہ وہ سب کیلئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا رہے ہیں- لیکن جب انہوں نے عورتوں کی تحریک میں فعال حصہ لینے والی سرگرم خواتین جیسے عاصمہ جہانگیر اور شہلا ضیا کے ساتھ عورتوں کی تحقیقاتی رپورٹ پر کام کیا تو انہیں جنس پر مبنی پیچیدہ قسم کے مسائل کا علم ہوا اور انہیں احساس ہوا کہ ایسے قوانین جو بظاہر انصاف پر مبنی نظر آتے ہیں کس طرح عورتوں کیلئے اس صورت میں نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں جبکہ ان کے نقطہء نظر سے لاتعلقی برتی جائے-

عورتوں کو بااختیار بنانے کیلئے سندھ کے شعبہ خواتین کی یہ دستاویز بہت سارے بیوروکریٹس کی آنکھیں کھول دیگی خاص طور سے ان لوگوں کی جو غربت کے خاتمے، معاشی اختیار، تعلیم، انصاف، سیاست میں عورتوں کے کردار میں اضافہ کرنے اور عورتوں کو بااختیار بنانے کیلئے سہولتیں فراہم کرنے کے نظام کو مستحکم بنانے سے متعلق پالیسی تیار کرنے کے ذمہ دار ہیں-

اس دستاویز کا ایک مضبوط مثبت پہلو بھی ہے- اس دستآویز میں سائنسی اصولوں کے مطابق کام کرنے پر زور دیا گیا ہے- دستاویز میں حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اعدادوشمار جمع کریں اور ان کا گوشوارہ ترتیب دیں نیز باضابطہ اور بے ضابطہ معیشت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں عورتوں کے کام سے متعلق تحقیق کی جائے اور اعدادوشمار جمع کیے جائیں-

اس دستاویز میں اس بات کی بھی درخواست کی گئی ہے کہ جنس کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ اعدادوشمار صحت کے ساتھ اکٹھے کئے جائیں تاکہ اس بات کا علم ہو سکے کہ عورتیں کس طرح عدم مساوات کا شکار ہوتی ہیں-

عورتیں جس جبرواستبداد سے گزر رہی ہیں اسے دور کرنے کیلئے اس قسم کے حقیقی اعداد وشمارکا ہونا ضروری ہے- اس سے ان کارکنوں کو بھی مدد ملیگی جو اعداد و شمار پر مبنی ٹھوس معلومات کی بنا پر وکالت کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں-

اگر قومی سطح پر اس طرز فکر کو اختیار کر لیا جائے تو اس سے اس بات کا پتہ چلانے میں بھی مدد ملیگی کہ بے ضابطہ اور بلا اجرت کام کرنے والی عورتوں کے کام کی معاشی قدروقیمت کیا ہے جسے ملک کی جی ڈی پی میں شمار نہیں کیا جاتا اگرچہ کہ بہت سے ماہرین معاشیات یہ تجویز پیش کرچکے ہیں کہ قومی معیشت میں عورتوں کی خدمات کو نظر انداز کردینے سے نتائج مسخ ہوجاتے ہیں-

لیکن، اس اہم دستاویز میں ایک اہم نکتہ کو فراموش کر دیا گیا ہے- اس جانب انیس ہارون نے اپنی افتتاحی تقریب میں اشارہ کیا کہ پیدائشی سرٹیفکیٹ میں ماں کے نام کا اندراج نہیں کیا جاتا- اس قسم کی خامیاں اور بھی بہت سی دستاویزات میں موجود ہیں جو شناخت میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں مثلا پاسپورٹ جس میں ولدیت کے خانے میں ماں کا نام درج نہیں ہوتا- کسی شخص کی شناخت اس کے والد کے نام سے کی جاتی ہے-

ریٹائرڈ جسٹس ماجدہ رضوی 2002 - 2003 میں نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کی چیر پرسن تھیں عام شناختی دستاویزات میں ماں کا نام درج کرنے کی سرگرم حامی تھیں خواہ وہ پیدائش کی سرٹیفکیٹ ہو، شناختی کارڈ ہو یا پاسپورٹ-

جس زمانے میں شیکسپیرنے رومیو اور جولیٹ ڈرامہ لکھا ان دنوں انگلینڈ میں شناختی کارڈ کا کوئی نظام موجود نہ تھا --- آج بھی یہ نظام موجود نہیں ہے- چنانچہ یہ عظیم شاعریہ کہکر صاف بچ گیا کہ: "نام میں کیا رکھا ہے، گلاب کو کسی بھی نام سے پکارو اسکی خوشبو میٹھی ہی رہے گی"-

لیکن آج گلاب کو گلاب ہی کہنا پڑتا ہے- ماجدہ رضوی نے جو آجکل اس جانچ پڑتال کی کمیٹی کی سربراہ ہیں جو اعضاء کو تبدیل کرنے کے قانون کے تحت سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کی جانب سے قائم کی گئی ہے، اس نکتہ کی جانب اشارہ کیا ہے کہ اگر کارڈ میں ماں کا نام درج نہ ہو تواس کے سماجی اثرات کیا ہو سکتے ہیں-

رضوی کے مطابق یہ رجعت پسند ذہن ہی ہے جو پالیسی سازوں کو ایسا کرنے سے روکتا ہے- ان کی سوچ کے مطابق عورت غیر مرئی ہے اور اسے پوشیدہ ہی رہنا چاہئے؛

"لیکن ذرا دیکھئے تو اس کے عملی نتائج کیا ہوسکتے ہیں- جب مجھے اپنا عضو تحفہ دینے والی "ماں" اور اسے لینے والا "بیٹا" کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کرنا ہوتی ہے تو میرے پاس کوئی قانونی طریقہ موجود نہیں کہ میں اس تعلق کی توثیق کر سکوں کیونکہ شناختی کارڈ میں ماں کا نام نہیں لکھا جاتا گرچہ اس کا ریکارڈ نادرا کے ڈیٹا بیس میں موجود ہوتا ہے- اب اس غریب شخص کو نادرا کے دفتر جاکر پانچ سو روپئے ادا کرنے ہوتے ہیں تاکہ اسے فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل ہو جس میں اس کی ماں کا نام درج ہوتا ہے."

ہمیں امید ہے کہ تمام صوبے سندھ کی مثال پر عمل کرینگے اور عورتوں کو بااختیار بنانے کیلئے پالیسی رہنما اصول تشکیل دینگے- ہمیں یہ بھی امید کرنی چاہئے کہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، پیدائشی سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے افسران بھی اس مسئلے کو سمجھیں گے اور ماں کے نام کا اندراج کرینگے-


ترجمہ: سیدہ صالحہ

زبیدہ مصطفی

www.zubeidamustafa.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025