• KHI: Fajr 5:08am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:36am Sunrise 5:56am
  • ISB: Fajr 4:40am Sunrise 6:02am
  • KHI: Fajr 5:08am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:36am Sunrise 5:56am
  • ISB: Fajr 4:40am Sunrise 6:02am

'شاید دوبارہ پاکستان نہ جا سکوں'

شائع May 2, 2013

میرے دل میں اپنی جائے پیدائش دینا جانے کی خواہش ایک عرصے سے تھی، گلزار۔ — فائل فوٹو
میرے دل میں اپنی جائے پیدائش دینا جانے کی خواہش ایک عرصے سے تھی، گلزار۔ — فائل فوٹو

گلزار صاحب کا حالیہ پاکستان کا دورہ ایک قومی بحث کی وجہ بن گیا ، حالاں کہ حقیقت میں یہ دورہ مکمل طور پر ذاتی اور جذباتی نوعیت کا تھا۔

اٹھتر سال پہلے دینا میں پیدا ہونے والے شاعر ستر سال میں پہلی مرتبہ اپنی جائے پیدائش آئے تھے۔

ایک اردو شاعر ہونے کے ناطے ان کا رابطہ بہت سے پاکستانی شعرا اور مصنفین سے رہا اور اکثر ہندوستان سے باہر ان سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں۔

اپنے دوست اور پاکستانی ہدایت کار حسن ضیاء کی جانب سے کراچی میں ہونے والے ادبی میلے میں مدعو کیے جانے کو انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔

ویشال بھاردواج جن کو وہ اپنا بیٹا مانتے ہیں ان کے ساتھ آئے کیوں کہ وہ پاکستانی قوالوں کے ساتھ اپنی آنے والی ایک فلم کے لئے قوالی ریکارڈ کرانا چاہتے تھے۔

ان فنکاروں کو ہندوستان آنے کی اجازت نہ تھی جب کہ گلزار صاحب چاہتے تھے کہ ان کا کام انڈین فلموں میں سامنے لایا جائے۔

طے شدہ پروگرام کے تحت پہلے لاہور میں گانا ریکارڈ کرانا تھا جس کے بعد دینا اور آخر میں کراچی کے ادبی میلے کے لئے روانہ ہونا تھا۔

ان کا اپنے دورے کو مختصر کرنے اور ہندوستان واپس آنے کے حوالے سے بہت سی کہانیاں گردش میں رہیں لیکن انہوں نے ایک لفظ نہ کہا۔

گلزار نے پہلی بار ٹائمز آف انڈیا سے کھل کر اظہار خیال کیا۔ اس گفتگو کے کچھ اقتباسات آپ کے سامنے پیش ہیں۔

کیا آپ تفصیل سے بتائیں گے کہ اس سال فروری میں آپ کے دورہ پاکستان کے دوران حقیقتاً کیا ہوا ؟

میں آٹھ سال کا تھا جب اپنے والد کے ہمراہ پاکستان چھوڑ کر یہاں چلا آیا۔

اس دوران میں صرف ایک مرتبہ 2004 میں چار دن کے ایمرجنسی ویزا پر لاہور گیا تاکہ اپنے استاد احمد ندیم قاسمی صاحب سے مل سکوں جو دل کا دورہ پڑنے کے بعد ہسپتال میں تھے۔

میرے دل میں اپنی جائے پیدائش دینا جانے کی خواہش ایک عرصے سے تھی۔

میں نے کئی بار چاہا کہ وہاں جاؤں لیکن میں اپنی یادوں میں بسے گھر، محلے، گلیوں کو کھونا نہیں چاہتا تھا کیوں کہ مجھے پتا تھا کہ دنیا کے دوسرے شہروں کی طرح وہاں بھی تبدیلیاں آگئی ہوں گی۔

میں اٹہتر برس کا ہو چکا ہوں۔ شاید یہ میرے لئے آخری موقع تھا اور اب میں دوبارہ وہاں جانے کے قابل نہ رہوں۔ ایک مرتبہ دینا جانے سے میری زندگی کا دائرہ مکمل ہو جاتا۔

میں چل کر واہگہ بارڈ عبور کرنا چاہتا تھا- اس زمین پر چل کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اپنے گھر، اپنی جائے پیدائش جا رہا ہوں-

یہ ایک انتہائی گہرا قلبی احساس تھا۔ جیسے ہی میں پاکستان کی سرحد پر پہنچا، میں نے اپنے جوتے اتار دیے تا کہ اپنے پاؤں اس مٹی پر رکھ سکوں۔

ہو سکتا ہے آپ کو یہ بات بچکانہ لگے لیکن میں اپنے پاؤں تلے اس زمین کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔

پاکستان سے میرے دوست حسن ضیاء ہمیں خوش آمدید کہنے آئے تھے اور جب ہمارے پاسپورٹ کی جانچ ہو رہی تھی تو میں نے انہیں ہماری طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے دیکھا۔

حسن کے ساتھ پہلے ہم لاہور گئے جہاں دو راتوں تک ریکارڈنگ کی گئی۔

دن کے وقت ہم لاہور کی سڑکوں پر گھومتے لیکن مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ مجھ جیسی حیثیت کے انسان کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ کسی سڑک پر نکلے اور ایک عام آدمی کے ساتھ بیٹھ کر بھٹا (مکئی) کھا سکے۔

وہاں کے لوگ مجھ سے محبّت کرتے ہیں، میرے چاروں طرف دوستوں اور ان کے رشتہ داروں کا ہجوم لگا رہتا تھا جو دور دور سے فقط مجھ سے ملنے کے لئے آتے تھے۔

میں ہر وقت لوگوں میں گھرا رہتا اور اس سے مجھے الجھن ہونے لگی۔ میں اندر سے تنہا تھا لیکن یہ بات میں کسی سے کہہ نہیں سکتا تھا۔

میں چاہتا تھا کہ تھوڑے چنے خریدوں اور کسی موچی سے کہہ سکوں کہ" میرے جوتے کا ناپ ذرا ٹھیک کر دیں "-

میں اپنے جوتے پالش کروانا چاہتا تھا لیکن مجہے اس کی اجازت نہیں تھی، چناچہ مجھے گھٹن ہونے لگی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اگلے دن ہمیں دینا جانا چاہیے۔

ہم دو کاروں میں سوار ہوئے اور پانچ گھنٹے بعد جہلم پہنچ گئے۔

ویشال اور ریکھا دوسری کار میں جبکہ حسن ضیاء اور ایک شاعر دوست میری کار میں تھے۔

میں پورے راستے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتا رہا اور آخر میں ایک جگہ رک کر ہم نے کیلے لئے۔

پاکستانی لوگ اپنی محبّت کا اظہار کھانے کی پیشکش سے کرتے ہیں اور ہماری کاروں کی ڈگیاں ہر طرح کے کھانے کی چیزوں سے بھر گئیں۔

ایمانداری کی بات ہے اتنی جگہ ہوتی نہیں جتنا وہ کھلاتے ہیں'۔'

میرے دوست بہت سی باتیں کرنا چاہتے تھے لیکن میری خواہش تھی کہ وہ کچھ نہ کہیں اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔

میں نے آج تک اپنی پوری زندگی میں اتنے اردو سائن بورڈ نہیں دیکھے تھے اور چاہتا تھا کہ راستے میں جو بھی سائن بورڈ آئیں ان سب کو پڑھتا جاؤں۔

میں خاموشی سے کار میں بیٹھا انہیں پڑھتا رہا، پڑھتا رہا۔ میں نے آج تک کبھی ایک دن میں اتنی اردو نہیں پڑھی تھی۔

جہلم پہنچنے کے بعد ہم دینا اسٹیشن گئے جوبالکل اُسی طرح تھا جیسا میں ستر سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔ سوائے ایک کمرے کے جو بعد میں خواتین کے لئے بنایا گیا تھا۔

اسٹیشن سے آگے کھلے میدان تھے جن کو دیکھ کر پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ مجھے اپنے والد کے جانے کا منظر یاد آگیا جب وہ دہلی میں پہاڑ گنج اپنی دکان کا سودا لانے جایا کرتے تھے۔

میں بھی ان کے ساتھ جانا چاہتا تھا لیکن چار لوگ مجھے روک لیتے تھے اور میں بس ان کو ٹرین میں کھڑا اور دور جاتے دیکھتا رہ جاتا۔

اور پھرجب بھی میں کسی ٹرین کو دیکھتا یا اس کی سیٹی کی آواز سنتا تو بھاگ کر اسٹیشن پہنچ جاتا اور ان کا انتظار کرتا۔

ان تمام یادوں کے تازہ ہونے پر میری گھٹن اور بڑھنے لگی کیوں کہ میرے چاروں طرف لوگ باتیں کر رہے تھے اور مجھے تنہائی میسر نہیں آرہی تھی، میں بس خاموشی چاہتا تھا۔

میں یہ بات اپنے مہربان میزبانوں کو کیسے سمجھاتا جنہوں نے میرے لئے کھانے کی چیزیں تیار کی تھیں کہ مجھے کچھ کھانے کی خواہش نہ ، ہاں البتہ میں نے بس کچھ مرتبہ پانی ضرور پیا۔

مغرب کا وقت قریب تھا اور میں مرکزی بازار جانا چاہتا تھا جہاں میں رہا کرتا تھا۔

اسٹیشن سے ایک سڑک سیدھی وہاں تک جاتی تھی اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بازار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، سامنے ایک روڈ پر نیا بازار ضرور بن گیا ہے ، اور یہ دونوں بازار داتا چوک پر جا کر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔

ہم نے وہاں اپنی کاریں کھڑی کیں اور پرانے بازار کے اندر داخل ہو گئے۔ ہر چیز جیسے دوبارہ زندہ ہو گئی۔

میں سب سے آگے چل رہا تھا اور بنا کسی رہنمائی کے اس گلی میں پہنچ گیا جہاں ہم رہتے تھے۔

چند ایک کھڑکیوں کو چھوڑ کر سب چیزیں ویسی کی ویسی ہی تھیں۔ لوگ جانتے تھے کہ میں آرہا ہوں اس لئے انہوں نے مجھے گھیر لیا۔

کچھ دکان داروں نے مجھے پہچانتے ہوئے میرے اہل خانہ، میرے بڑے بھائی، بہن اور ماموں کے بارے میں پوچھنے لگے۔

اچانک ان میں سے ایک نے مجھے سے الله دتہ کے بارے میں پوچھا۔ میرے والد کے بہت سے مسلمان دوست تھے انہی میں سے ایک دوست کے بیٹے کی انہوں نے پرورش کی تھی۔

میں نے انہیں بتایا کہ جب اللہ دتہ کراچی آیا تو میرا اس سے رابطہ ختم ہو گیا، آج وہ وہاں ایک ٹیکسٹائل مل کا مالک ہے۔

انہیں چھوٹی چھوٹی تفصیلات یاد تھیں جیسے کہ میرے بھائی کے سسر کا نام مکھن سنگھ کیلے والے جو میرے والد کے نام مکھن سنگھ کرلاں والے سے ملتا جلتا تھا۔

پھر انہوں نے کہا کہ تمہارے والد مجھ سے پانچ روپیہ کرایہ وصول کرتے تھے، اب تم ان کے وارث آگئے ہو تو یہ پیسے مجھ سے لے لو۔

مجھے رونا آ گیا اور میں نے ان کا ہاتھ تھاما اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پھرمیں اپنے اسکول گیا، وہاں بھی میرا انتظار ہو رہا تھا۔

جب میں وہاں پڑھتا تھا تو وہ دو بلاک پر مشتمل صرف پرائمری اسکول تھا لیکن اب اسے ہائی اسکول کا درجہ مل گیا ہے۔

وہاں تیسرے بلاک کا اضافہ بھی ہوا ہے جس کا نام "گلزار کلرا بلاک" رکھا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر میں بہت جذباتی ہو گیا۔

واپسی پر میں دینا سے ایک میل دور کرلاں جانا چاہتا تھا جہاں میرے والد پیدا ہوئے تھے، لیکن اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا اور میری حالت کے پیش نظر حسن ضیاء نے مشوره دیا کہ میں آگے جانے کے بجائے ویشال اور ریکھا کے ساتھ واپس لاہور چلا جاؤں۔

انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ میں کیسا محسوس کر رہا ہوں کیوں کہ میں بار بار اپنی ناک صاف کر رہا تھا۔

آدھے راستے میں ہم لالہ موسیٰ رکے، جہاں کی ایک مشہور دکان سے کبھی ہم میا کی دال کھایا کرتے تھے۔ میں جانتا تھا کہ میں نے اپنے ساتھ دوسروں کو بھی بھوکا رکھا ہوا ہے،جب ہم لاہور پہنچے تو اندھیرا ہو چکا تھا۔

اب وقت تھا کہ ہم اپنی ریکارڈنگ دوبارہ شروع کریں لیکن مجھے احساس ہوا پس منظر میں قوالی کے باوجود میں بالکل تنہا ہوں۔

لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنے بچپن سے مل کر خوشی محسوس کرتے ہیں لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا۔

اس میں کوئی اچھی بات تو ضرور ہے مگر افسوسناک بھی۔ میں خود کو ٹھیک محسوس نہیں کر رہا تھا اور یہ بات سب سے پہلے ویشال نے محسوس کی۔

اس نے کہا کہ سامان باندھتے ہیں۔ میں وہاں کسی ہسپتال میں داخل نہیں ہونا چاہتا تھا کیوں کہ ایسے حالات میں آپ اس جگہ جانا چاہتے ہیں جہاں کے میڈیکل سیٹ اپ سے آپ واقف ہوں۔

ویشال نے میرا ہاتھ تھاما اور کہا " گلزار صاحب ،کراچی نہیں جاتے" ۔

حسن ضیاء کے سر پہ بہت بڑی ذمہ داری تھی جو مجھے اپنے ساتھ کراچی کے ادبی میلے میں لے جانے لاہور سے آئے تھے لیکن میں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری حالت کو سمجھا۔

ویشال اور میں نے واپس ممبئی آنے کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے زیادہ بات کرنے سے گریز کیا کہ کہیں کوئی نیا قضیہ نہ کھڑا ہو جائے لیکن جب تک ہم امرتسر پہنچے اس وقت تک سب کو پتا چل گیا اور آخر کار یہ ایک سفر متنازعہ بن ہی گیا۔

اپنے والد کے بارے میں کچھ بتائیں؟

میرے والد مجھے 'پنی' بلاتے تھے وہ ایک کپڑے کے تاجر تھے ان کا دہلی اور دینا دونوں جگہوں میں کاروبار تھا۔

اسی لئے میں نے اپنی بیٹی کا نام 'بوسکی' رکھا، یہ ایک چینی ریشم کا نام ہے۔

تقسیم کے بعد ہم نے پاکستان چھوڑ دیا۔ میرے بھائی کے برعکس جو کہ ہماری برادری کے پہلے گریجویٹ تھے اور اُس زمانے کے لحاظ سے تعلیم یافتہ تھے، میرے والد کو مجھ سے بہت کم امیدیں وابستہ تھیں کہ میں اپنی زندگی میں کیا کروں گا۔

اور یہ بات مجھے آج بھی تکلیف دیتی ہے - 1960 میں جب میرے والد کا انتقال ہوا تو میں ممبئی میں بمل دہ ( بمل راۓ ) کے معاون کے طور پر کام کر رہا تھا۔

مجھے اطلاع نہیں دی گئی بس پانچ دن بعد ایک پوسٹ کارڈ کے ذریعے مجھے ان کی وفات کی خبر دے دی گئی۔


بشکریہ ٹائمز آف انڈیا

ترجمہ: ناہید اسرار

کارٹون

کارٹون : 30 ستمبر 2024
کارٹون : 28 ستمبر 2024