• KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am

نفرتوں کے سائے میں

شائع April 23, 2013

(تصاویر بڑھی کرنے کے لیے کلک کریں)

ننکانہ کی حیثیت سکھوں کے لیے وہی ہے جو مسلمانوں کے لیے مکّہ کی۔

یہ اُن کے مذہبی پیشوا بابا گرونانک کی جنم بھومی ہے۔ یہاں ہر طرف سکھ دور کے آثار بکھرے نظر آتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ بابا صاحب نے رچنہ دوآب کے وسط میں موجود اس قصبے میں اپنی زندگی کے ابتدائی برس گزارے تھے۔ اب یہاں اُن سے وابستہ ہر نشانی اور ہر مقام سکھوں کے لیے زیارت گاہ ہے۔

نوجوان نانک کو اُن کے والد نے اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے بیس روپے دیے تھے لیکن انہوں نے وہ رقم غریبوں اور بھوکوں میں بانٹ دی اور پھر والد کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے جھاڑیوں میں روپوش ہوگئے۔

اس جگہ کو بعد میں گردوارہ تمبو صاحب کا نام دے دیا گیا۔ پنجابی میں تمبو کے لغوی معنی حفاظتی چھت اور پناہ گاہ کے ہیں۔ photo10 میں نے اپنے دوست کلیان سنگھ کے ساتھ سفر کی دوسری رات اسی مقام پر بسر کی۔ کلیان، گورنمنٹ کالج گجرانوالہ میں پنجابی کے لیکچرار ہیں۔

سکھوں کے لیے پنجابی زبان اس لیے بھی مقدس ہے کہ وہ اُن کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کی زبان ہے، لیکن یہاں دو سو سے زائد ایسے سکھ خاندان بھی ہیں جو پشتو بولتے ہیں۔

یہ سب خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کر کے یہاں پہنچے ہیں۔

ننکانہ صاحب ان کی آخری اُمید ہے۔ وہ تمبو کے اندر پناہ لینے کی کوششوں میں ہیں، مگر یہاں شاید ہی جگہ باقی بچی ہو۔

ان کے ساتھ تھوڑے بہت گزارے وقت کے دوران مجھے اس حقیقت کا احساس ہوا کہ اُن کے ساتھ بیتے واقعات خود اپنے اندر خود ایک افوسناک کہانی ہیں۔

اگر آپ ان میں سے کسی مرد یا عورت سے ان کی زندگی کے بارے میں پوچھیں تو وہ کچھ یوں شروع کریں گے: سن اُنیّسو اکھہتر کی جنگ کے بعد میری بہن کے خاندان نے پشاور سے نقل مکانی کی یا پھرسن اُنیس سو بانوے میں بابری مسجد کے انہدام کے وقت میرے بھائیوں نے نقل مکانی کرلی اور نائین الیون کے بعد میرے والدین بھی چلے آئے۔

افسوس کہ ان کے پاس آج بھی اسی طرح کے حوالے دینے کی کوئی کمی نہیں آ سکی ہے۔

میں تقریباً پانچ سال قبل ڈیرہ بگٹی سے نقل مکانی کر کے یہاں پہنچنے والے شیر سنگھ سے بھی ملا جن کے لیے اپنے آبائی علاقے میں مسلح تصادم کے بعد زندگی گزارنا مشکل ہو گیا تھا۔

[vimeo 64372788 w=400 h=300]

گردواروں کی دیواروں کے سائے میں رہائش پذیر اس چھوٹی سی برادری کو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔

سکھوں کے لیے گردوارہ انتہائی مقدس مقام ہے مگر ننکانہ کے زیادہ تر مسلمانوں کے لیے یہ محض ایک بیش قیمت اور منافع بخش زمین کا ٹکڑا ہے۔

یہاں اطراف میں قبضے کی زمینوں پر کاروبار کے ساتھ ساتھ رہائشی عمارتیں بھی موجود ہیں اور یہ قابضین مذہبی عدم برداشت کی پرچار کرتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے مفادات وابستہ ہیں۔

کوئی سیاستدان بھی اس مسئلے کو اٹھانے پر تیار نہیں۔ سکھ ووٹ بہت کم ہیں جس کی وجہ سے عدم تحفط کا شکار یہ برادری کسی سیاسی جانب جھکاؤ کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔

اُن کے غیر سیاسی ہونے کی ایک بڑی وجہ وہ مشکلات بھی ہیں جو انہیں شناختی کارڈ کے حصول میں پیش آتی ہیں۔

اس معاملے میں بعض قانونی پیچیدگیاں بھی موجود ہیں۔ یہ اُن قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ہیں جنہیں مکمل بندوبستی (سیٹلڈ) علاقوں کے مساوی سہولت حاصل نہیں۔

اس کے علاوہ، زیادہ تر پریشانی کی وجہ افسران کا وہ محتاط رویہ بھی ہے جو ان سے روا رکھا جاتا ہے۔

ملک کا شہری ثابت کرنے کے لیے 'بی فارم' بچے کی شناختی دستاویزہے لیکن افسر شاہی کے رویے کے سبب، نادرا کے مقامی دفتر سے یہ دستاویز حاصل کرنا سکھوں کے لیے جوئے شِیر لانے کے مترادف بن جاتا ہے۔

کوئی افسر بھی خفیہ ایجنسیوں کے سوالوں کا سامنا کرنا کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتا، بالخصوص جب وہ آسانی سے ان غیر مسلموں کو اپنے دفتروں سے بھگا سکتا ہو۔ photo12 پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے والے کلیان سنگھ سے جس روز میں ملا، اُن کے چہرے اور ہاتھوں پر خرونچوں کے نشانات تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ کسی کام سے آج ایک سرکاری دفتر گئے جہاں ایک اجنبی نے بنا کی وجہ کے انہیں دھکے دیے اور زمین پر گرادیا۔

"ایسا میرے ساتھ پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے، لوگ ہم سے لطف لینے کے لیے سرِ عام بدسلوکی کرتے ہیں۔" یہ کہتے ان کے چہرے پر افسردگی صاف نظر آرہی تھی۔

مجھے خدشہ ہے کہ کچھ لوگ محض ثواب کمانے کے لیے اس طرح کا برتاؤ کرتے ہوں گے۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں صرف الزامات لگا رہا ہوں تو میں نہایت ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ آپ کو غلط  ثابت کر سکتا ہوں۔ photo22 گوردوارہ جنم استھان سے متصل ایک بہت بڑی مسجد زیرِ تعمیر ہے۔ اس کا مینار اتنا زیادہ بُلند ہے کہ اسی کی  روایتی میناروں کی طرح تعمیر ممکن نہیں۔

اس بُلند ترین مینار کو خاص طور پرڈیزائن کیا جارہا ہے تاکہ یہاں کے ملا اپنے نفرتوں کی بلندیوں سے اس چھوٹی سی  برادری پر دھاک بٹھا سکیں۔

مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا جا رہا ہے کہ گردوارہ اس کے مقابلے میں کہیں چھوٹا لگنے لگے۔

ڈیزائن کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے مخصوص پلیٹ فارم کو بھی غیر معمولی طور اتنا اونچا تعمیر کیا جارہا ہے تاکہ وہ گردوارے کے پلیٹ فارم سے زیادہ بُلند ہو اور اس طرح مسلمان ان سے ایک منزل اوپر ہی رہیں۔

کیا یہ بلندی واقعی انہیں اللہ کے قریب تر لے جائے گی؟

بازار کھانے پینے کی دکانوں سے بھرا پُرا ہے لیکن دکاندار سکھوں کو صاف منع کردیتے ہیں یا پھر ان کے کپ، برتن اور گلاس وغیرہ الگ رکھے جاتے ہیں۔

کلیان سنگھ نے یہاں لگ بھگ اپنی پوری زندگی بسر کی ہے اور وہ آپ کو بتا سکتا ہیں کہ کون سا ریڑھی والا انہیں کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرے گا اور کون سا نہیں۔

ایک چائے خانے پر آگے پڑے دو گلاس سکھوں کے لیے مخصوص ہیں جبکہ پیچھے موجود کپ مسلمانوں کے لیے ہیں۔
ایک چائے خانے پر آگے پڑے دو گلاس سکھوں کے لیے مخصوص ہیں جبکہ پیچھے موجود کپ مسلمانوں کے لیے ہیں۔

لیکن ان سے سب سے کہیں بڑا مسئلہ شناختی دستاویزات کا نہ ہونا ہے۔ یہاں ایسی بھی مثالیں ہیں کہ سکھ بچے صرف ب فارم نہ ہونے کے سبب میٹرک کے امتحانات میں شریک نہ ہوسکے۔

زیادہ تر سکھ بچے برادری کے قائم شدہ ایک تعلیمی ادارے میں علم حاصل کرتے ہیں۔ اس اسکول کے دروازے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے بھی کھلے ہیں۔ اس کے سربراہ اور استاد مسلمان ہیں۔ photo32 میں اس نااُمیدی کے عالم میں ایک اُمید جگانے کی کوشش کررہا تھا اور بالآخر اس میں کامیاب رہا۔

یہ دو دوستوں کی سدا بہار کہانی ہے: ملیے نورالعین اور بلوندر کور سے۔

میرے تاثرات و مشاہدات اُس تک مکمل نہیں ہوسکتے، جب تک میں آپ سے گردوارہ تمبو صاحب کی چوکھٹ سے جڑے ایک پرانا قصہ نہ بتا لوں۔

اس واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ پرانا وقت کتنا سنہرا ہوتا تھا۔

میں ممکنہ طور پرغیر ضروری ناخوشگوار ردّعمل سے بچنے کے لیے اس شخص کے ساتھ گفتگو کی وڈیو جان بوجھ کر شیئر نہیں کروں گا۔

وہ خود کو درویش کہہ رہا تھا اور بابا گرو نانک کو سلام پیش کرنے کے لیے اُن کی چوکھٹ پر پہنچا تھا۔ وہ یہ امتیاز برتنے پر تیار ہی نہ تھا کہ بابا مسلمان نہیں تھے، اُس نے کہا تھا: "وہ ایک بہت بڑے اللہ والے تھے اور ہم سب یہ جانتے ہیں۔ "

ترجمہ: مختار آزاد

طاہر مہدی

لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025