• KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am

زبان اور سوچ کا رشتہ

شائع April 9, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

آجکل پاکستان میں تعلیم کے مسئلہ پر کافی باتیں ہو رہی ہیں- لیکن بدقسمتی سے سنجیدہ سوچ اور فکر کی کمی نظر آتی ہے، رہا عمل تو اس کا فقدان نظر آتا ہے- مجھے امید ہے کہ جلد ہی یہ باتیں عمل کی صورت میں بھی نظر آئینگی- لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا ضروری ہے کہ ہم اس مسئلہ پر بات کرتے رہیں تاکہ یہ مسئلہ زندہ رہے-

حال ہی میں کراچی لٹریچر فسٹیول میں ایک اجلاس تعلیم کے موضوع پر بھی ہوا جس میں صف اول کے ماہرین تعلیم نے حصہ لیا، جو ایک مثبت قدم تھا- لیکن جیسا کہ متوقع تھا مقررین اس موضوع کو جو یخ بستہ ہے، ہلکا سا چھو پائے-

بحث و تمحیص کے دوران جو مسئلہ اُبھر کر سامنے آیا وہ تنقیدی سوچ سے متعلق تھا- ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ایک بے لاگ تنقیدی سوچ رکھنے والے انسان ہیں اوران کا یہ کہنا بالکل برمحل تھا کہ آج کسی سکول میں طالب علموں کو "سوچنے" کی تربیت نہیں دیجاتی، خواہ وہ اشرافیہ کا کوئی مہنگا اسکول ہو یا پھرمعمولی فیس لینے والا کوئی کمیونٹی اسکول-

آپ سوال کر سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے- وجہ یہ ہے کہ ماہرین تعلیم نے خود اپنے لئے"آرام گاہیں" بنالی ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کوئی"گستاخ" طالب علم چبھتے ہوئے سوال پوچھ کر انھیں بے آرام کر دے اور وہ سوچنے اور مسائل کا حل ڈھونڈنے پر مجبورکر دئے جائیں-

ہم ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں توثیق اور تصدیق کو انتہائی قدرکی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے- تعلیم کا مقصد کیا ہونا چاہئے ہم ابھی تک گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں-

ایک مقصد تو اچھے مسلمان بنانا اور دوسرے ملازمت کے قابل ہونا. ہم ابھی تک اس نتیجے پر پہنچ نہیں پائے ہیں کہ نوجوانوں میں تنقیدی سوچ پیدا کرنا ضروری ہے- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رٹ رٹا کریا ناجائز طریقوں کے ذریعہ امتحان میں کامیاب ہوجانا ہمارا اولین مقصد ہے-

بلکہ آخر"تنقیدی سوچ" کو سکھانے ضرورت ہی کیا ہے- یہ تو ہر بچے میں فطری طور پر موجود ہوتی ہے- بلکہ ہم تو اس فن میں ماہر ہیں کہ اس سوچ کو کچل دیں- چنانچہ تخریب کا عمل تو سب سے پہلے والدین ہی کے ہاتھوں سرانجام پاتاہے. سب سے پہلے تو ماں کے ہاتھوں اگر باپ اس کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا اور اس کے بعد استاد کے ہاتھوں. اور جبتک بچہ تیرہ کے لگ بھگ ہو یہ کارنامہ مکمل ہو چکا ہوتا ہے-

بچوں میں قدرتی طور پر تجسس کا مادہ ہوتا ہے جو اس بات کا اولین ثبوت ہے کہ وہ سوچ سکتا ہے- جب وہ سوالات کرتا ہے ---- اور اس کے بہت سے سوال ہمیں بے معنی لگتے ہیں ---- تو وہ ان چیزوں کی گہرائی تک پہنچنا چاہتا ہے جو اسکے دماغ کو پریشان کر رہی ہوتی ہیں-

اگر اس عمل کو محض اس لئے روک دیا جائے کہ بڑوں کے پاس نہ تو اس کیلئے وقت ہے اور نہ ہی صبر یا پھر یہ کہ وہ ان سوالوں کے جواب دینا ہی نہیں چاہتے تو بچوں کو جو سیدھا سادہ پیغام ملتا ہے وہ ہے "چپ رہو"-

ٹی وی کو بہت سے لوگ "بے بی سٹر" کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں جس سے بچوں کا ذہن سوجاتا ہے- ہوسکتا ہے ٹی وی کی تصویروں کو دیکھ کربچوں کو بہت سی معلومات ملتی ہوں لیکن وہ اسے سوچنے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہیں-

یہ عمل استاد کے ہاتھوں اس وقت اور بھی آگے بڑھنے لگتا ہے جب وہ بچوں کی تخلیقی قوتوں کو کچل دیتا ہے اور نئی سوچ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے- سب سے زیادہ نمبراس طالب علم کو دیئے جاتے ہیں جو اپنی درسی کتابوں کو پڑھ کر جوں کے توں جواب دہراتا ہے-

اگر تنقیدی سوچ کی جانب ہمارا رویہ تبدیل بھی ہو جائے تب بھی جب تک ہم زبان کے مسئلہ کو ساتھ ساتھ حل نہیں کرتے، کامیابی کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں-

بہت سے ماہرین تعلیم اس مسلمہ حقیقت سے اتفاق کرتے ہیں کہ بچے کی بہترین تعلیم اسکی مادری زبان میں ہی ہو سکتی ہے- اسکے باوجود آج بھی انگریزی پر بلکہ اردو پر بھی، جن گھروں میں یہ زبان نہیں بولی جاتی ---- ڈھٹائی سے زور دیا جارہا ہے-

جو بات تشویشناک ہے وہ یہ ہے کہ پرائمری اورابتدائی سطح تک ہم مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے میں ناکام رہے ہیں- تعلیم نیچے سے شروع ہوکر اوپر کی طرف جاتی ہے اسلئے جب بچہ اسکول جانا شروع کرتا ہے تو اہمیت اس بات کی ہے کہ اس کی نفسیات کی جانب توجہ دی جا ئے-

اعلی تعلیم کی سطح پر آپ زبان سکھانے کی کتنی ہی بہترین تدبیریں کیوں نہ کرلیں اس نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی جو پہلے ہی ہوچکا ہے-

دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ زبان کا سیکھنا ایک حیاتیاتی عمل ہے جس کا دماغ کی ترقی اورعلم و ادراک کی نشوو نما سے گہرا تعلق ہے- جیسے جیسے بچہ زبان سیکھتا جاتا ہے اس کے سوچنے کی صلاحیت بھی بڑھنے لگتی ہے جس کے نتیجے میں اس کی زبان ترقی کرتی ہے- کیونکہ بہرحال سوچنے کیلئے زبان کی ضرورت ہے-

یہی وجہ ہے کہ جس بچے کو زبان پر مہارت نہیں ہوتی ---- کیونکہ وہ ماں بولی سے محروم ہے، اور دوسرے یہ کہ انسانی رابطے بھی انکی پہنچ میں نہیں ہوتے ---- اسی لئے ان کی علم حاصل کرنے کی صلاحیت بھی کمزور ہوتی ہے-

جب بچہ اس مرحلے سے گزررہا ہوتا ہے اور اس پر ایک ایسی زبان کا بوجھ لاد دیا جائے جسے وہ سمجھتا ہی نہیں ہے تو اس کے نتیجے میں وہ اپنی مادری زبان سے بھی دور ہوجاتا ہے اور دوسری طرف علم حاصل کرنے کی صلاحیت کو بھی نقصان پہنچتا ہے-

انسانی دماغ کے بارے میں ہونے والی نئی تحقیقات سے جو سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی جیسی ٹکنولوجیکل ترقی کی بدولت ممکن ہوئی ہے ہمیں نوزائدہ بچوں کے دماغ کے بارے میں معلومات کا ایک خزانہ حاصل ہوا ہے- "نو زائیدہ بچے دنیا کو ہم سے زیادہ سمجھتے اور جانتے ہیں جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا- وہ سوچتے ہیں، نتائج اخذ کرتے ہیں، پیش گوئی کر سکتے ہیں، وجہ جاننا چاہتے ہیں بلکہ تجربے بھی کرتے ہیں-" یہ سب کچھ اس کتاب میں لکھا ہے جس کا نام ہے"ہاؤ بے بیز تھنک"- یہ کتاب ایلیسن گوپنک، اینڈریو میلٹزوف اور پٹریشیا نوبل نے لکھی ہے-

اس سے زیادہ دلچسپ بات بہ ہے کہ سائینس سے اب ہمیں پتہ چلا ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے دماغ کی نیورولوجیکل ساخت پہلے ہی سے بن چکی ہوتی ہے- لیکن بچہ جن تجربات سے گزرتا ہے اس کے نتیجے میں اس کے دماغ میں زندگی کے ابتدائی برسوں میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں-

بچہ اپنے حسیاتی اعضاء کے ذریعہ جو تجربے حاصل کرتا ہے اس کا تعلق نیورون کی نشوو نما سے بھی ہے- دماغ کی ری-وائرنگ کا گہرا تعلق علم حاصل کرنے کے عمل سے ہے- بچے کی سیکھنے کی صلاحیت کا گہرا تعلق اسکی زبان سے ہے-

چنانچہ، کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ زبان کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ پاکستان میں جہاں والدین کی اکثریت ناخواندہ ہے اور جو لوگ تعلیم یافتہ بھی ہیں ان میں سے بھی ایک معمولی حصہ دو زبانیں جانتا ہے- ایسی صورت میں آپ ایک چھوٹے سے بچے کو ایسی زبان میں کیسے تعلیم دے سکتے ہیں جس سے وہ غیر مانوس ہے؟


ترجمہ . سیدہ صالحہ

زبیدہ مصطفی

www.zubeidamustafa.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Abbas Apr 09, 2013 11:16pm
Please start using regular Urdu font on the Dawn-Urdu website. This Arabic style font is almost unreadable. Thank You

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025