بہتے ڈیزل میں ہاتھ دھونا
مغربی طاقتوں کی ایران پر معاشی پابندیاں سخت ہونے کے بعد پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ڈیزل کی غیر قانونی تجارت میں ملوث اسمگلرز کی چاندنی ہو گئی ہے۔
اس کاروبار میں اس قدر پیسہ آ گیا ہے کہ افیون کے کئی مشہور اسمگلر بھی اب غیر قانونی طور پر درآمد ہونے والے کم قیمت ڈیزل کی تجارت کرنے لگے ہیں۔
ایران کی سرحد سے ملحق پاکستانی علاقے مند کو اسمگلنگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
ماضی میں یہاں پر افیون کے کاروبار سے منسلک ایک شخص کا کہنا ہے کہ 'ہم اب افیون کیوں اسمگل کریں جبکہ ہمیں ڈیزل کی اسمگلنگ سے اتنا ہی پیسہ مل جاتا ہے، یہ کام افیون کے کاروبار سے کہیں زیادہ محفوظ ہے'۔
خود کو حامد کے نام سے متعارف کرانے والے اس شخص کا مزید کہنا تھا کہ 'اس نئے کام کی وجہ سے انہیں اب کامیاب کاروباری شخصیت سمجھا جاتا ہے نہ کہ پہلے کی طرح منشیات فروش' ۔
بلوچستان کو کالے دھن پر مبنی عالمی معیشت کی ایک اہم راہداری تصور کیا جاتا ہے۔
یہاں اسلحہ، منشیات ، ڈیوٹی فری سگریٹ اور استعمال شدہ ٹویوٹا گاڑیوں سمیت کئی غیر قانونی کاروبار بہت عرصے سے جاری ہیں اور ڈیزل کی اسمگلنگ بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔
لیکن رائٹرز کی حالیہ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے اب ڈیزل کی اسمگلنگ دوسرے غیر قانونی کاروبار کی نسبت بہت زیادہ منافع بخش ہو چکی ہے۔
رائٹرز نے پورے صوبے میں اس کام سے وابستہ مختلف لوگوں سے بات چیت کی اور ان سرحدی علاقوں کا بھی دورہ کیا جہاں سے ڈیزل کی اسمگلنگ کی جاتی ہے۔
رائٹرز کی تحقیقات کی روشنی میں صوبے میں موجود پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے اس کاروبار سے مبینہ طور پر منسلک ہونے پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے تاہم یہاں آبادی بہت کم ہے۔
یہاں ایک طرف آزاد بلوچستان کے خواہشمند شدت پسند اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں تو دوسری جانب منشیات فروش گروہ افغانستان سے افیون اور ہیروئن کو دنیا بھر کے بازاروں میں پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
بلوچستان کے ایک چھوٹے سے علاقے نوشکی میں قانون سے بے خطر نظر آنے والے ڈیزل کے کچھ تاجر ایرانی سرحد پر جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
سونے کی گڑی پہنے اور اپنے خدوخال سے بہت امیر کاروباری شخصیت دکھائی دینے والے ایک ٹرانسپورٹر نے بتایا کہ 'اس طرح سے ڈیزل لانا انتہائی سستا اور زیادہ منافع بخش ہے'۔
'یہاں تمام سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی چیک پوسٹیں موجود ہیں لیکن ہمیں کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا تو ہم یہ کام کیوں نہ کریں؟'
پاکستان کی اسٹیٹ آئل کمپنی ہر سال کویت پیٹرولیم کارپوریشن سے سالانہ دواعشاریہ سات سے تین ملین ٹن تک ڈیزل درآمد کرتی ہے اور پچھلے کئی سالوں سے ایران سے اسمگل ہونا والا تیل اس کے علاوہ ہے۔
سال 2010ء کے آخری حصے میں ایران نے تیل پر سبسڈی کم کر دی تھی جس کے بعد منافع میں گراوٹ کی وجہ سے پاکستان میں ڈیزل کی غیر قانونی درآمد بہت کم ہو گئی۔
لیکن گزشتہ ستمبر اسمگلرز کے کاروبار میں اس وقت بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا جب مغربی طاقتوں کی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی کرنسی ریال امریکی ڈالر کے مقابلے میں محض ایک ہفتے میں ہی چالیس فیصد تک اپنی قدر کھو بیٹھا۔
ایرانی کرنسی کی قدر میں اس کمی کی وجہ سے پاکستانی خریداروں کے لیے بھی ڈیزل کی قیمتیں انتہائی کم ہو گئیں۔
ایران نے فی لیٹر ڈیزل کی قیمت 4500 ایرانی ریال مقرر کی ہے۔ اوپن مارکیٹ یہ قیمت تقریباً پندرہ امریکی سینٹ بنتی ہے جو منرل پانی کی ایک بوتل کی قیمت سے بھی کم ہے۔
پاکستان میں اسمگل ہونے والا ڈیزل 104 روپے (ایک اعشاریہ صفر چھ امریکی ڈالر) فی لیٹر تک بکتا ہے، جو سرکاری طور پر متعین 112 روپے فی لیٹر سے سستا ہے۔
بلوچستان میں ڈیزل کے ڈیلرز اتنا زیادہ منافع کما رہے ہیں کہ اب کئی مسافر بسوں کے مالکان اپنی گاڑیاں بیچ کر ایسے مضبوط پِک اپ ٹرکس خرید رہے ہیں جو سرحدی علاقوں کے اونچے نیچے راستوں پر تیل کی ترسیل کرسکیں۔
الطاف نامی شخص، جو ان دنوں ایرانی ڈیزل کو تربت تک پہنچاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ پک اپ خریدنے کے لیے اپنی منی بس بیچ دی تھی۔
الطاف کا کہنا ہے کہ ڈیزل کی ترسیل سے انہیں پہلے سے کہیں زیادہ آمدنی ہو جاتی ہے۔
جوگر کے سرحدی علاقے میں کئی بچے پیپسی کی بوتلوں میں ایرانی ڈیزل لیے ہوئے گرینائیڈ کی پہاڑوں پر اترتے چڑھتے نظر آتے ہیں، کچھ ڈیزل گدھوں پر لاد کر سرحد کے اس طرف لایا جاتا ہے۔
بلوچستان کے ساحلی علاقے میں ڈیزل کی صنعتی سطح پر منظم اسمگلنگ ہوتی ہے۔
خلیج اومان کے راستے ڈیزل لانے والی کشتیاں یہاں بندر گاہوں پر لنگر انداز ہوتی ہیں۔
یہاں پر سمگلرز انفرادی طور پر ڈیزل کے بیرل گوداموں میں پہنچاتے ہیں، جنہیں بعد میں ٹینکر ٹرکوں کے ذریعے آگے بھیج دیا جاتا ہے۔
یہ تصدیق کرنا تو مشکل ہے کہ اسمگلنگ کے ذریعے کتنا ڈیزل پاکستان میں آتا ہے لیکن بعض تاجروں کا ماننا ہے کہ بلوچستان میں ہر روز پچیس سے چالیس ہزار لیٹر کی صلاحیت والے 100 سے 130 ٹینکر بھرے جاتے ہیں۔
یہ ٹینکر بعد میں پاکستان یا پھر افغانستان میں تیل پہنچاتے ہیں۔
افغنستان کا ایرانی مصنوعات پر انحصار واشنگٹن کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔
افغنستان میں ایک اعلٰی امریکی عہدے دار نے جنوری میں خبردار کیا تھا کہ امریکا کی جانب سے دیے جانے والے فنڈز کے ذریعے افغان سیکیورٹی فورسز کے لیے ایران سے تیل خریدا جاتا ہے جو تہران پر خود واشنگٹن کی پابندیوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
ایران کی جانب سے پاکستان کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعلقات بڑھانے کی کوششوں کو بھی امریکہ تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔
پاکستان کو بلوچستان کے راستے پائپ لائن کے ذریعے ایرانی گیس کی ترسیل کے منصوبے پر واشنگٹن نے سخت مخالفت کی ہے۔
پاکستان میں جس آسان طریقہ سے ڈیزل کی اسمگلنگ پھیلی ہے اس سے بلوچستان میں حکومتی رٹ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اس کاروبار میں بے انتہا پیسہ کی وجہ سے خیال کیا جاتا ہے کہ صوبے میں امن و امان قائم کرنے کی بنیادی ذمہ دار پیرا ملٹری فورس، فرنٹئیرز کور اور دوسری ایجنسیوں کے بعض عناصر بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔
بلوچستان کی جنوبی ساحلی پٹی اور اسمگلنگ کے لیے جنت سمجھے جانے والے مکران میں ایک سینیئر سرکاری عہدے دار نے الزام لگایا ہے کہ 'ایف سی، کوسٹ گارڈز اور پولیس اسمگلرز سے ایک معقول معاوضہ لے کر انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں'۔
ایف سی نے اس حوالے سے رابطہ کیے جانے پر تبصرے سے انکار کیا۔
لیکن ماضی میں یہ فورس متعدد بار اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ اس نے کئی بار بھاری اسلحہ سے لیس ہیروئن کے اسمگلروں کا مقابلہ کیا ہے۔
دوسری جانب، تیل درآمد کرنے والے اور اس کی مارکیٹنگ سے وابستہ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسزاس حوالے سے اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔
کوئٹہ میں کھلے عام اسمگل شدہ مصنوعات فروخت کرنے والے غلام علی کا کہنا ہے کہ ایرانی ڈیزل اور پیٹرول سے بھرے ہوئی گاڑیاں بلا کسی روک ٹوک ہمیں ایسے تیل فروخت کرتی ہیں جیسے یہ کوئی معمولی بات ہو۔
ایرانی سرحد کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایکسپورٹ اور امپورٹ کا کاروبار کرنے والے اکبر بلوچ کہتے ہیں کہ اس سارے کھیل میں دونوں ملکوں کی با اثر شخصیات ملوث ہیں۔
ان نے بتایا کہ ان شخصیات کے مسلح کارندے اسمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والی گاڑیوں کا تحفظ کرتے ہیں۔
پاکستان میں حکام اس سارے معاملے سے بخوجی آگاہ ہیں۔
کوئٹہ میں سینیئر کسٹم عہدے دار ابراہیم وگیو نے بتایا کہ حکومت ایک ہزاراہلکاروں پر مشتمل انسداد اسگلنگ یونٹ بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
ابراہیم کہتے ہیں کہ اسمگلنگ روکنے کے لیے ان کے پاس فورسز، مناسب ہتھیاروں، اور آلات کی کمی ہے۔