جنوبی کوریا کیخلاف حالت جنگ کا اعلان
سیئول: شمالی کوریا نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنوبی کوریا سے 'حالت جنگ' میں داخل ہو چکا ہے۔
ہفتہ کو جاری ایک بیان میں شمالی کوریا نے امریکا اوراپنے پڑوسی جنوبی کوریا کو خبردار کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی جارحیت جوہری تنازع میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ جیسا کہ اب بین الکوریائی تعلقات حالت جنگ میں داخل ہو چکے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تمام امور دوران جنگ پرٹوکول کے مطابق ہی نمٹائے جائیں گے۔
اقوا متحدہ نے کہا ہے کہ وہ اس دھمکی کو انتتہائی سنجیدگی سے لے رہا ہے تاہم جنوبی کوریا نے اسے ماضی میں ملنے والی دھمکیوں کی طرح قرار دے کر نظر انداز کر دیا ہے۔
خطے میں پہلے سے جاری تناؤ میں اس وقت شدت آ گئی تھی جب امریکا نے جنگی صورتحال میں جوہری صلاحیت کے حامل اسٹیلتھ طیاروں کے استعمال کا عندیہ دیا تھا۔
امریکا کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کی جانب سے کسی بھی قسم کی جارحیت کی صورت میں وہ جنوبی کوریا کا بھرپور دفاع کرے گا۔
شمالی کوریا کا شدید ردعمل امریکا اور جنوبی کوریا کی جانب سے وارننگ کے بعد سامنے آیا ہے۔
عالمی برادری نے موجودہ صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملہ بے قابو بھی ہو سکتا ہے۔
شمالی کوریا نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ طویل عرصے سے جزیرہ نما کوریا کے حالات جنگ اور امن کی مبہم صورتحال سے دوچار تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
'اب امریکا یا جنوبی کوریا کی جانب سے کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی ایٹمی جنگ کو جنم دے گی'۔
تکنیکی طور پر شمالی اور جنوبی کوریا گزشتہ چھ دہائیوں سے حالت جنگ میں ہیں کیونکہ 1950-53 تک دونوں ملکوں کے درمیان جاری رہنے والی جنگ کسی امن معاہدے کے بجائے محض سیز فائر پر ختم ہوئی تھی۔
شمالی خطے نے اس ماہ کے شروع میں اعلان کیا تھا کہ وہ جنوبی کوریا اور امریکہ کے درمیان مشترکہ جنگی مشقوں پر احتجاجاً سیز فائر اور دیگر امن معاہدے ختم کرتا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے پیانگ یانگ کے بیان کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسے تخریبی قرار دیا تھا۔
نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان کیٹلن ہیڈن نے کہا کہ شمالی کوریا کی پوری تاریخ جارحانہ بیانات اور دھمکیوں سے بھری پڑی ہے اور آج کا اعلان بھی اسی کی ہی ایک مثال ہے۔
دوسری جانب سیئول کی یونیفکیشن منسٹری نے کہا ہے کہ جنگ کی دھمکیاں نئی بات نہیں ہیں جبکہ وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ابھی تک سرحدوں پر افواج کی کسی بھی قسم کی نقل و حرکت کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں لیکن کسی بھی قسم کی جارحیت کی صورت میں بھرپور جوابی کارروائی کی جائے گی۔
ماضی میں کشیدہ صورتحال کے باوجود شمالی کوریا ہرگز نہیں چاہے گا پڑوسی ملک کے ساتھ اتحاد سے چلنے والے صنعتی کمپلیکس پر کسی قسم کا اثر پڑے کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کو خاطر خواہ آمدنی ہوتی ہے۔
تجزیہ نگاروں موجودہ صورتحال کو صرف لفظی جنگ خیال کر رہے ہیں۔
کوریا کے معاملات پر نظر رکھنے والے واشنگٹن میں مقیم ایک ماہر گورڈن فلیک نے کہا کہ 'میرا نہیں خیال کہ جنوبی کوریا کی جانب سے سیز فائر کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد جنگ کے اعلان کی کوئی کسر باقی رہتی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ صورتحال بہت زیادہ گمبھیر ہے اور کسی بھی قسم کی غلطی سے جارحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے'۔
فلیک نے کہ 'اصل خطرے کی بات یہ ہے کہ شمالی کوریا نے امریکا پر حملے کی دھمکی دی ہے لیکن انہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں'۔
عالمی برادری نے صورتحال پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
روس اور چین نے تینوں ملکوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے جبکہ روسی وزیر خارجہ نے صورتحال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ' صورتحال قابو سے باہر ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے'۔
دونوں ملکوں کی جانب سے یہ اپیل شمالی کوریا کی اس دھمکی کے بعد آئی ہے جب اس نے جنوبی کوریا میں امریکی اسٹیلتھ بمبار طیاروں کی پرواز کے بعد اپنے میزائل یونٹوں کو امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کیلیے تیار رہنے کا حکم دیا تھا۔
شمالی کوریا کی جانب سے دسمبر میں دور تک مار کرنے والے راکٹ کے کامیاب تجربے اور فروری میں تیسرے جوہری تجربے کے بعد سے تناؤ کا آغاز ہو گیا تھا۔
ان دونوں واقعات پر اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا پر نئی پابندیوں اور امریکا اور جنوبی کوریا کی سالانہ مشترکہ فوجی مشقوں کے بعد شمالی کوریا کی دھمکیوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔