• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

راجہ پرویز اشرف کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

شائع March 28, 2013

سپریم کورٹ آف پاکستان فائل فوٹو۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کمیشن کیس میں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں دو ہفتے بعد خود عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے راجہ پرویز اشرف کے خط سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے کہا کہ ہم نے ایک حکم جاری کیا تھا جس کا نفاذ ضروری ہے۔

اس موقع پر سابق وزیر اعظم کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ راجہ پرویز اشرف نے ایک شہری کے طور پر انصاف کے لیے خط لکھا اور عدالت سے درخواست کی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست کا کیا مطلب کیا یہ پوسٹ آفس ہے؟، اگر عام شہری خط لکھتا تو کیا ہم اسے خوش آمدید کہتے؟، عدالتیں فیصلے دے چکیں اس طرح کے خطوط عدالتی کام میں براہ راست مداخلت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ راجہ پرویز اشرف نے وزیراعظم کی حیثیت سے یہ خط لکھا، اگر آپ کو بطور وزیراعظم ان پر اعتماد نہیں تو ہم ان کی تضحیک نہیں کرسکتے۔

افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ وہ کسی سے متاثر نہیں ہوتے اور صرف اپنے فرض سے متاثر ہیں، راجہ پرویز اشرف کا یہ پہلا خط نہیں ہے، قواعد کے خلاف کوئی درخواست لکھنا عدالتی کام میں مداخلت ہے لہٰذا یہ خط بھی عدالتی کارروائی میں مداخلت ہے۔

وسیم سجاد نے کہا کہ بطور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو آر پی پیز کیس میں مشکلات کا سامنا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک میں ہر شخص مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔

اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ خط کی بجائے پی ایم کو باضابطہ درخواست دینی چاہئیے تھی۔

سماعت کے موقع پر عدالت نے کہا کہ 'سابق وزیر جانتے تھے کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے خط تحریر کیا جو عدالت پر اثر انداز ہونے اور عدالتی کارروائی میں مداخلت کے مترداف ہے'۔

عدالت نے راجہ پرویز اشرف کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے آرٹیکل 204 کے تحت نوٹس جاری کردیا۔

عدالت نے کہا کہ سابق وزیر اعظم  دو ہفتے بعد عدالت میں بذات خود پیش ہوں اور عدالت کو بتائیں کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہ کی جائے۔

سابق وزیرِ اعظم نے آٹھ مارچ 2013 کو چیف جسٹس کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں انہوں نے 22 ارب روپے مالیت کے رینٹل پاور اسکینڈل کیس کی تحقیقات نیشنل اکاؤنٹیبیلٹی بیورو(نیب) کی جگہ شعیب سڈل کی سربراہی میں ایک کمیشن سے کرانے کی درخواست کی تھی۔

وزیرِ اعظم نے خط میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا گیا اور خصوصی عدالتی کمیشن کی منصفانہ اور شفاف تحقیقات کے ذریعے حقائق کو منظرِ عام پر لایا جائے۔

اس سے قبل 15 جنوری کو سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس میں مبینہ طور پر ملوث وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت تمام سولہ ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے کرائے کے بجلی گھروں کی تنصیب کا ازخود نوٹس لیا تھا جبکہ اسی دوران فیصل صلاح حیات نے کرائے کے بجلی گھروں میں کروڑوں روپے کی بدعنوانی کیخلاف درخواست بھہی دائر کی تھی۔

فیصل صالح حیات کی جانب سے دائر درخواست میں ان معاہدوں میں سابق وزیر اعظم پر مبینہ طور پر کروڑوں روپے رشوت لینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

گزشتہ برس مارچ کے اواخر میں رینٹل پاور کیس میں کرائے کے بجلی گھروں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان معاہدوں کو کالعدم قرار دیا تھا اور انہیں قوری طور پر منسوخ کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ ان معاہدوں میں ملوث افراد کیخلاف قانونی کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024