انتخابی سال کا بجٹ
بجٹ سے کسی بھی حکومت کی ترجیحات اور طرز حکمرانی کے بارے میں بہت کچھ ظاہر ہوجاتا ہے۔ چونکہ خرچ کیا جانے والا پیسہ ٹیکس دہندگان کا ہوتا ہے اس لیے ان کے حکمرانوں کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اسے ذمہ داری اور ایمانداری سے خرچ کریں۔
سندھ بجٹ دو ہزار بارہ- تیرہ کا طائرانہ جائزہ لینے سے انتخابات کے سال میں ہماری منتخب حکومت کے سیاسی عزائم کے بارے میں بہت کچھ منکشف ہوتا ہے۔ جس حکومت نے عوام کے معاشی مصائب پر زیادہ توجہ نہ دی ہو اگر وہ اچانک ووٹ دہندگان کو خوش کرنے کی پالیسیاں اختیار کرنا شروع کردے تو اس میں کوئی عجیب بات نہیں۔ لیکن جب غیر معمولی انداز سے رقوم مختص کی جانے لگیں تو شک کرنا چاہیے اور کچھ سوالات پوچھنے چاہئیں۔
عام طور پر تجوری کی چابی جس کے ہاتھ میں ہو اسے مختلف مطالبات کے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، خصوصاً اگر وسائل قلیل ہوں۔ چنانچہ بجٹ ترجیحات کا تعین خالصتاً اقتصادیات سے نہیں ہوتا۔ اگر حکومت سیاسی طور پر کمزور ہو تو اخلاقی طور پر دیوالیہ اور بدعنوانی پر مبنی مصلحت کوشی کا راج ہوجاتا ہے۔ اگر ملک پر قرضے کا بھاری بوجھ ہو تو غیر ملکی امداد دینے والوں کو یہ شرائط عائد کرنے کا موقع ملتا ہے کہ کتنی رقم کہاں اور کیسے خرچ کرنی ہے کیونکہ معیشت کا انحصار عطیہ دہندگان پر ہوجاتا ہے۔
سندھ کے نئے بجٹ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ رقوم مختص کرنے میں آئندہ انتخابات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ حکومتوں کی روایت نہیں ہے کہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے انتخابات سے پہلے ووٹروں کے لیے بہت سخاوت کا مظاہرہ کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ انتخابی مشینری کو تیل دے کر انتخابی فتح کے حصول کا راستہ ہموار کرنے کی خاطر پیسہ خرچ کیا جارہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ انتخابی عمل کو حکمراں جماعت کے حق میں جھکانے کے لیے بجٹ میں مالی گھپلا کرنے کی خاصی گنجائش چھوڑی گئی ہے۔
صوبے کے 315.3 ارب روپے کے مجموعی جاریہ محاصل اخراجات میں سے کل 196.1 ارب روپے (62 فیصد) کا بھاری حصہ صرف دو مدوں پر خرچ کیا جائے گا: تعلیم (99.3 ارب روپے) اور عمومی خدمات عامہ — جسے اچھے دنوں میں انتظامیہ کہا جاتا تھا– (96.8 ارب روپے)۔
دوسرے شعبے جو بہتر سلوک کے مستحق تھے صرف 119.2 ارب روپے حاصل کرپائے ہیں۔ بے شک وسائل کم ہیں لیکن کیا تقسیم زیادہ مساویانہ نہیں ہوسکتی تھی؟ تضاد یہ ہے کہ سب سے زیادہ رقم جن دو مدوں میں رکھی گئی ہے (دیکھئے بجٹ دستاویز بعنوان سیلینٹ فیچرز آف بجٹ 2012-13) ان کی کارکردگی بدترین ہے۔
تیسری مد، نظم عامہ و تحفظ کے امور، جس کے لیے 47.1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اس کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں۔ اس کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ جنوری 2012ء سے اب تک کراچی میں لگ بھگ 1340 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
اور بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ جن دو مدوں کو نوازا گیا ہے ان کے بعض ذیلی شعبوں میں ناقابل فہم بھاری اضافے کیے گئے ہیں۔
تعلیم کو لیجئیے جس کے حصے میں سب سے بڑی رقم آئی ہے۔ رواں محاصل کے بجٹ میں اس میں پچھلے سال کی نسبت 76 فیصد کا خطیر اضافہ کیا گیا ہے۔ سندھ کے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ بچوں کی تعلیم ’’ہر ریاست کی بنیاد‘‘ ہے۔ اسی لیے انہوں نے کہا کہ تعلیم کے لیے جو رقم مختص کی جائے گی وہ سن دو ہزار سات – آٹھ سے، جب انہوں نے عہدہ سنبھالا تھا، چھ گنا ہوگی۔
کیا تعلیم کے شعبے میں جذب کرنے کی صلاحیت، نگرانی کی مشینری اور میرٹ پر مبنی دیانتدارانہ بھرتی پالیسی لائے بغیر کوئی تبدیلی آسکے گی؟ المیہ یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے جس بنیاد کی بات کی وہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ سالانہ اسٹیٹ آف ایجوکیشن رپورٹ 2011ء میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے سیکھنے کے حوالے سے سندھ کی کیفیت ملک میں بدترین ہے۔
پوچھنے والی بات یہ ہے کہ اگر سندھ میں تعلیمی معیار و مقدار میں متناسب ترقی نہیں ہوئی تو تعلیمی بجٹ میں اچانک 43.1 ارب روپے اضافے کی کیا ضرورت تھی؟ اس دیوانگی کے پیچھے ہوشیاری چھپی ہوئی ہے۔
سندھ کے محکمہ تعلیم میں نااہلی اور بدعنوانی کی ان گنت کہانیاں ہیں۔ جماعتی وفاداریوں کی بنیاد پر بدعنوانی سے لبریز تقرریوں کے بارے میں کس نے نہیں سنا؟ اس نظام میں جہاں اسکول پولنگ مراکز کا اور عملہ ریٹرننگ افسران کا کام کرتا ہے، کس کا فائدہ ہوگا؟ ہماری سیاسی اصطلاح میں اسے ’’دھاندلی‘‘ تک نہیں شمار کیا جاتا۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ کایا کلپ ہوگئی ہے او حکومت کے دل میں سندھ کے بچوں اور ان کی تعلیم کی محبت جاگ اٹھی ہے تودوبارہ سوچ لیں۔
شکر ہے کہ انتظامیہ کا بجٹ 22 فیصد کم کردیا گیا ہے لیکن اطمینان کا سانس لینے سے پہلے ذیلی مدوں کے باریک چھپے ہوئے اعدادوشمار دیکھ لیں۔ کچھ مدوں میں دلچسپ بھاری اضافے کیے گئے ہیں۔
سندھ کابینہ میں پہلے ہی 68 ارکان (52 وزرا، 16 مشیر) ہیں جنہوں نے 2011-12ء میں خزانے سے سرکاری طور پر 37 کروڑ 47 لاکھ روپے وصول کیے۔ اب وزرا اور خصوصی معاونین/مشیروں کے لیے مختص رقم بڑھ کر 55 کروڑ ایک لاکھ روپے کردی گئی ہے۔ ان حالات میں جب عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں، وزرا کو اپنی ناقص کارکردگی پر تنخواہوں میں اضافہ نہیں مانگنا چاہیے۔
ذرا انتظار کریں۔ ابھی دیکھنا ہے کہ آیا یہ رقم انتخابات کے سال میں دوست بنانے اور لوگوں پر اثرانداز ہونے کے لیے تو نہیں رکھی گئی۔ پارٹی ڈیلز اور انتخابی انتظامات کے لیے حکمرانوں کو سیاسی مخالفین کو سیاسی فائدے دینے ہوتے ہیں۔ وزارتی قلمدانوں کے وعدے عموماً اس مقصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی سیاستداں کسی مطلوبہ عہدے کا حقدار نہیں تو کیا پروا! اہل اقتدار کے لیے سیاسی وزن اور ووٹوں کی تعداد اہم ہوتی ہے۔ کسی ناپسندیدہ ہنگامی صورتحال کے لیے ’’دیگر (نامعلوم)‘‘ اخراجات کی مد میں 2011-12ء کے 2 کروڑ 55 لاکھ روپے سے بڑھا کر 2012-13ء میں ساڑھے تین کروڑ روپے (37 فیصد اضافہ) کردیے گئے ہیں۔
http://www.zubeidamustafa.com/urdu/