• KHI: Maghrib 6:55pm Isha 8:14pm
  • LHR: Maghrib 6:32pm Isha 7:57pm
  • ISB: Maghrib 6:40pm Isha 8:07pm
  • KHI: Maghrib 6:55pm Isha 8:14pm
  • LHR: Maghrib 6:32pm Isha 7:57pm
  • ISB: Maghrib 6:40pm Isha 8:07pm

اردو انسٹیٹیوٹ میں ایک شام

شائع March 3, 2013

  ،اردو انسٹیٹیوٹ، شامبرگ لائبریری، شکاگو -- فوٹو --  سیدہ صالحہ
،اردو انسٹیٹیوٹ، شامبرگ لائبریری، شکاگو -- فوٹو -- سیدہ صالحہ

آج ذکر ہے شامبرگ لائبریری میں اردو انسٹیٹیوٹ کی جانب سے منعقد ہونے والی حالیہ ادبی محفل کا، لیکن اس سے پہلے کچھ اس ادارے کا تعارف اور تاریخی پس منظر 

شکاگو میں اردو بولنے والوں کا ایک وسیع حلقہ موجود ہے جس میں پاکستانی اور ہندوستانی دونوں ہی شامل ہیں- اپنی ثقافت اور زبان سے جڑے رہنے کی خواہش نے چند افراد کو شا مبرگ لائبریری میں اکٹھا ہونے پراکسایا- یہ سلسلہ نوے کی دہائی سے شروع ہوا تھا اوراسکا مقصد تھا کہ یہ لوگ جن میں سے بیشترتخلیق کار تھے ایک دوسرے کو اپنی تخلیقات سنائیں اور ذوق ادب کی آبیاری کریں

اردو کی مشھور ناول نگار اور افسانہ نگار محترمہ رضیہ فصیح احمد اور ان کی ایک دوست مرحومہ نسیمہ کلثوم نے اس تحریک کی ابتدا کی- اس گروپ نے حلقہء ارباب اردو کے نام سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا

کافی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن جب کچھ عرصے بعد لوگوں کی دلچسپی میں کمی آنے لگی تو پھر یہ طے کیا گیا کہ اس فورم کو تخلیقی ادب کے علاوہ دیگر علمی سرگرمیوں کیلئے بھی استعمال کیا جائے- رجسٹریشن کے مقصد کیلئے اس تنظیم کا نام اردو انسٹیٹیوٹ رکھا گیا اور شامبرگ لائبریری نے ادارے کیلئے ایک کمرہ بھی اپنی عما رت میں مخصوص کردیا

اردو انسٹیٹیوٹ کی جانب سے اب تک نہ صرف مختلف ناول نگار، ناقدین اور محققین کو مدعو کیا جاچکا ہے بلکہ مختلف سیمیناروں کا اہتمام بھی کیا گیا جن میں سے دو قابل ذکر ہیں- ایک سیمینار تو اردو کے معروف کلاسیکی شاعر حضرت امیر خسرو پر اور دوسرا فیض احمد فیض پر تھا- گزشتہ سال انسٹیٹیوٹ نے"امیر تیمور سے مغل سلطنت" تک کے موضوع پر ایک پروگرام ترتیب دیا تھا جس سے یونیورسٹی آف شکاگو کے معروف پروفیسر ڈاکٹر جان ووڈز نے خطاب کیا تھا- اس پروگرام میں اسلامی عہد کے کے سکوں کی نمایش بھی کی گئی تھی

اردوانسٹیٹیوٹ کے پریذیڈنٹ جناب امین حیدرنے آئندہ پروگراموں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ادارے کی جانب سے اپریل میں ایک سیمینار "رومی کا  روحانی سفر اقبال تک" کے موضوع پر منعقد ہوگا جسے شامبرگ لائبریری کا تعاون بھی حاصل ہے - اس سیمینار سے یونیورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر فرینکلن لوئیس اوران کے تین شاگرد بھی خطاب کرینگے - یہ پروگرام اردو ، فارسی اورانگریزی میں پیش کیا جائیگا -

اردوانسٹیٹیوٹ میں ادبی نشست ہر مہینے کے چوتھے اتوار کودوپہر ایک بجے سے شام کے چھ بجے تک منعقد ہوتی ہے- اس کمرے میں تقریباً پچاس ساٹھ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے- میز کرسیاں لگی ہیں- ویڈیو ڈسپلے کیلئے اسکرین بھی لگا ہے اور مائیک لائبریری کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے-

ہر نشست کیلئے کسی خاص موضوع کا انتخاب ہوتا ہے- پچھلی بار تو"اردو نثر میں انگریزوں کی خدمات" پر مضمون پڑھا گیا تھا- اس بار نشست کا موضوع تھا "اردو صحافت تاریخ کے آئینے میں"- مقالہ ضیاء الحسن صاحب نے پڑھا- آپ کا تعلق ہندوستان سے ہے- مقالہ بے حد دلچسپ، معلوماتی اور تحقیق سے پر تھا- مقالہ کے ساتھ ساتھ ضیاء الحسن صاحب نے سلائڈز بھی دکھائیں جو اس مقالہ کے اہم نکات اورقدیم اخبارات کے سرورق کی تصاویرپرمشتمل تھیں -

محترم ضیاء الحسن -- فوٹو -- سیدہ صالحہ

ضیاء صاحب نے بتایا کہ بر صغیر میں اردو صحافت انگریزوں کی مرہون منت ہے گوکہ اس میں ان کی اپنی غرض پوشیدہ تھی- پھر محمد حسین آزاد کے والد محمد باقر کا ذکرآیا جنہوں نے اردو کا پہلا ہفتہ وار اخبار نکالا تھا اور اپنے باغیانہ خیالات کی وجہ سے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد فائرنگ سکواڈ کی گولیوں کا نشانہ بنائے گئے-

سر سید احمد خان، حسرت موہانی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان جیسی نامور ہستیوں اور ان سے وابستہ اخبارات الہلال، البلاغ اور زمیندار کا ذکر ہوا- یہ بات سامنے آئی کہ اس زمانے میں بھی صحافت پابند سلاسل تھی لیکن لوگ سچ کہنے سے نہیں ڈرتے تھے اور سچ کہنے کی سزا بھی پاتے تھے لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب بر صغیرانگریزوں کی نوآبادی تھا-

ان دنوں ایک باقرنے موت کی سزا پائی تھی آج پتہ نہیں دنیا بھرمیں کتنے صحافی صفحۂ ہستی سے مٹا دئے جاتے ہیں- لفافہ جرنلزم کا بھی ذکر ہوا- ضیاء صاحب نے ابوالکلام آزاد کی وہ عبارت بھی پڑھ کر سنائی جس میں انہوں نے آزادی ضمیر کا سبق دیا تھا اور ضمیر فروش صحافیوں کے خلاف آواز بلند کی تھی- الہلال اور البلاغ کو لوگ حلقہ با ندھ کرسنا کرتے تھے- زمیندار کی تعداد اشاعت تیس ہزارتھی-

اس زمانے کے مشھور جرائد کا ذکر ہوا توعصمت اور نذر سجاد حیدرکا بھی ذکر ہوا-

ضیاء صاحب نے صحافت کے ارتقا پر بھی روشنی ڈالی ابتداء میں تو اخبار کی خبروں کے ذرائع محدود تھے- خبر رساں ایجنسیوں کی ابتدا تو بہت بعد میں ہوئی ورنہ اخباروں کو مقامی ذرائع پر اکتفا کرنا پڑتا تھا- اب تو الیکٹرونک ترسیلات نے صحافت میں بھی انقلاب برپا کردیا ہے- پلک جھپکتے میں خبریں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہیں-

برصغیر کی تقسیم سے پہلےاردوکے اخبارات کی تعداد 415 تھی- پاکستان کا قیام عمل میں آیا توان میں سے ستر اخبار پاکستان منتقل ہوگئے اور باقی ہندوستان میں رہ گئے- ضیاء صاحب نے اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 2007 میں ہندوستان سے 3168 اردو اخبارات نکلتے تھے جنکی مجموعی تعداد اشاعت ایک کروڑ سات لاکھ تھی-

ضیاء صاحب نے مضمون ختم کیا تو سامعین نے اپنی اپنی معلومات سے مزید اضافے کئے- اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اردو انسٹیٹیوٹ کی اس نشست کا انداز ملا جلا ہے یعنی رسمی اورغیر رسمی- سامعین اپنی اپنی نشستوں سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں- ایک چیزکی کمی جو محسوس کی گئی وہ یہ کہ ہندوستان کی اردو صحافت کی تاریخ پیش کی گئی، پاکستانی صحافت کا ذکرنہیں ہوا-

اسکی وجہ بھی تھی- کیونکہ مقالہ نگار کا تعلق ہندوستان سے تھا اور انھیں شائد وہ وسائل دستیاب نہ تھے کہ وہ اسکو بھی اپنے مضمون میں شامل کرلیتے- بہرحال تجویز یہ ہوئی کہ آئندہ کسی نشست میں پاکستانی صحافت کی تاریخ پیش کی جائے-

یہ تو پروگرام کا ایک حصہ تھا-

دراصل اس نشست میں نہ صرف یہ کہ کسی خاص موضوع کو زیر بحث لا یا جاتا ہے بلکہ سامعین میں سے بھی لکھنے والے اپنی اپنی نگارشات پیش کرتے ہیں- شرکاء میں پاکستانی اورہندوستانی اردو بولنے والے شامل ہوتے ہیں- میری ملاقات ہندوستان کی شاعر شمشاد جلیل شاد سے ہوئی جن کا تعلق پونے سے ہے- انکی نگارشات ہندوستان کے مختلف جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں اور انکی شاعری کا مجموعہ "پہلی دھوپ کا سایہ" حال ہی میں منظر عام پرآیا ہے - انہوں نے مجھے بتایا کہ نئی نسل نستعلیق پڑھنا نہیں جانتی چنانچہ اب وہ دیوناگری رسم الخط میں بھی اپنی کتابیں چھپوانا چاہتی ہیں-

ہندوستان کی ایک اور شاعرہ بانو سے  ملاقات ہوئی- یہ خاتون گجراتی بولتی ہیں اورشکاگو کے گجراتی اخبار میں کالم بھی لکھتی ہیں- شاعری اردو میں کرتی ہیں لیکن رسم الخط گجراتی استعمال کرتی ہیں - آ جکل نستعلیق سیکھ رہی ہیں کیونکہ یہ انکی شاعری کی ضرورت ہے- ان دونوں خواتین شعرا کے علاوہ چند اور شعرا حضرات نے بھی اپنا کلام سنایا جن کا تعلق ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ سے تھا-

ایک اور بات جو قابل ذکر ہے وہ ہے اپنی " آگہی " میں اضافے کی کوشش - چنانچہ جب نشست کا آغازہوا تو سب سے پہلے ایک صاحب نے غالب کا ایک شعرپڑھا جسے اسکرین پر بھی دکھایا گیا - شعر تھا :

ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب خو ن جگر ودیعت مژگان یار تھا

انہوں نے پہلے تو شعر کی خود تشریح کی اور پھر سامعین کو دعوت دی کہ وہ اس پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں - گفتگو کا یہ سلسلہ خاصا دلچسپ تھا-  طے یہ پایا کہ ہر نشست کا آغاز غالب کے کسی شعر کی تشریح سے کیا جائیگا- پھر ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ"یاد رفتگاں" کے نام سے شرکاء میں سے جو بھی چاہیں کسی نامورادیب یا شاعر کی تخلیقات یا پھراپنا لکھا ہوا کوئی مضمون پیش کر سکتے ہیں - شام کے چھ بجے محفل اختتام کو پہنچی -

  ،اردو انسٹیٹیوٹ، شامبرگ لائبریری، شکاگو  کے پریذیڈنٹ امین حیدر -- فوٹو --  سیدہ صالحہ
،اردو انسٹیٹیوٹ، شامبرگ لائبریری، شکاگو کے پریذیڈنٹ امین حیدر -- فوٹو -- سیدہ صالحہ

سب سے آخر میں محترم امین حیدر صاحب کا ذکر ضروری ہے جو اس انسٹیٹیوٹ کے روح رواں ہیں- وہ شکاگو کے اخبار اردو ٹائمز میں گزشتہ بیس سال سے 'نئی دنیا نیا منظر' کے نام سے کالم بھی لکھتے ہیں - ان کے ساتھ انکی پوری ٹیم بھی پروگراموں کو کامیاب بنانے میں اپنا اپنا حصہ ادا کرتی ہے- دیار غیر میں اس قسم کے پروگراموں کا اہتمام کرنا کوئی معمولی بات نہیں جو تقریباً دو دہائیوں سے کامیابی سے جاری و ساری ہے - قابل تحسین ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی زبان کے چراغ کو روشن رکھا ہوا ہے.

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Amin Haider Mar 03, 2013 06:48pm
اردو انسٹیٹیوٹ کی جانب سے میں ڈان اردو کا اور محترمہ سیـدہ صالحہ صاحبہ کا ممنون ہوں - اس طرح کی حوصلہ افزائی سے ہمیں جو تقویت حاصل ہوئی ہے اس سے ہم سب کی کاوشوں میں مثبت اضافہ ہو گا
shahida Mar 03, 2013 09:47pm
بہت خوب لکھا ہے . شا مبرگ لائیبریری میں اردو نشست کے بارے میں پڑھ کر مز ہ آگیا . اب رومی کے روحانی سفر اقبال تک کے سمینار کے بارے پڑھنے کا انتظار ہے گا

کارٹون

کارٹون : 16 اپریل 2025
کارٹون : 15 اپریل 2025