• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:41pm

ایک ارب کا مظاہرہ؟

شائع February 14, 2013

290x230-pakistani-women 670
فائل فوٹو –.

ایو انسلر، امریکی ڈرامہ نگار اور خواتین کے حقوق کی کارکن، وہ آخری اقدام اُٹھانے جارہی ہے جو اُس کے خیال میں ہماری زندگیوں سے عورتوں کے خلاف تشدد کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دے گا۔ اُس نے چودہ فروری ، سینٹ ویلنٹائن ڈے ، کو فتح کا دن قرار دے رکھا ہے۔

وہ اس حقیقت سے بہت متاثر ہے کہ دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت  (یعنی ایک ارب) کو زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انسلر کا کہنا ہے کہ بس بہت ہوگئی۔ اب وقت آگیا ہے کہ عورتیں اُٹھ کھڑی ہوں اور دنیا پر یہ واضح کر دیں کہ انہیں تشدد سے نفرت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہم کا نام" ایک ارب کا مظاہرہ" رکھا گیا۔

یہ وہ خواتین ہیں جن کے مسئلے کو انسلر عوامی میں اُٹھانا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ حکومتوں کو پتہ چلے کہ "عورتوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ اتنا ہی اہم ہے جتنا غربت کا خاتمہ، ایڈز  یا ماحولیاتی حرارت کا"۔

کچھ نقاد اس مہم کو سامراج کا کھیل قرار دیتے ہیں اور یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ امریکی بھیڑ چال میں شامل ہونے کی کیا منطق ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے ہی کیوں، جبکہ ہمارا اپنا خواتین کا قومی دن بارہ  فروری موجود ہے(1983ء میں اسی روز خواتین محاذ عمل نے لاہور میں جنرل ضیاء الحق کے بد نامِ زمانہ قانونِ شہادت کے خلاف جلوس نکالا اور پولیس تشدد کی شکل میں اس بغاوت کی قیمت ادا کی)۔

یہ سچ ہے کہ ہماری خواتین نے عورتوں کے حقوق بشمول تشدد سے تحفظ کا حق کے لئے ایک لمبی اور جرأت مندانہ جدوجہد کی ہے۔ تاہم آج جب عورتوں پر تشدد کے حوالے سے اتنا شور مچایا جارہا ہے تو ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ مسئلے کا وجود ہماری جدوجہد کی ناکامی کا ثبوت بھی ہے۔

مجھے خوشی ہوتی اگر ایک ارب کا مظاہرہ یا اس سے ملتے جلتے کسی اقدام کا ہم نے آغاز کیا ہوتا۔ تاہم میرا خیا ل ہے کہ جدوجہد کو بہرصورت جاری رہنا چاہئے اور انسلر کی کاوش کو غیر اہم قرار دے کر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ مسئلے کی شدت کو دیکھتے ہوئے اور قوانین کو بدلنے کے لئے خواتین کارکنان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُن کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں"ایک ارب کا مظاہرہ" کو ایک اور موقع کے طور پر دیکھنا چاہئے۔

اگرچہ ہمیں خواتین کی بہتری کے لئے کچھ قوانین بنانے میں کامیابی ہوئی ہے، لیکن گھریلو تشدد کا قانون مردوں کی مزاحمت کی وجہ سے کہیں اٹک کر رہ گیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم صورتحال کا غیر جذباتی انداز میں تجزیہ کرکے دیکھیں کہ خواتین پر تشدد کے مکمل خاتمے کی منزل سے ابھی بھی ہم کوسوں دور کیوں ہیں۔ اس کے لئے ضروری عوامی آگاہی کہیں نظر نہیں آتی۔ کچھ عورتیں آج بھی ماضی کا روایتی احساسِ ندامت ساتھ لئے پھرتی ہیں اور مردوں کے متشدد رویے کے لئے خود کو ذمہ دار سمجھتی ہیں۔ مردوں کی سوچ بھی تعصب سے بالا تر نہیں۔ ان جذبات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی تبدیلی کی امید رکھنا فضول ہے۔

 مردوں کی خاصی بڑی تعداد اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ اپنے خاندان کی عورتوں کو اپنا تابع فرمان رکھنے کے لئے تشدد کرنا اُن کا "حق"ہے۔ اس سوچ کو بدلنے کے لئے عوام میں شعور پیدا کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے مقامی اقدامات جن کی جڑیں ہماری اپنی ثقافت میں ہوں، زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں اور اُن پر عمل درآمد بھی نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ "ایک ارب کا مظاہرہ"بدیسی اقدام ہونے کی وجہ سےنامانوس سا لگتا ہے۔ جب میں نے یونہی اتفاقیہ ملنے والی خواتین سے پوچھا تو پتہ چلا کہ  بہت سی خواتین بشمول تعلیم یافتہ خواتین کے یہ نہیں جانتیں کہ "ایک ارب کا مظاہرہ" کیا ہے  اور یہ تو بالکل کسی کو پتہ نہیں تھا کہ اس مہم کا ماخذ کیا ہے۔

مجھے امید ہے کہ جمعرات کے روز اس حوالے سے جو محافل منعقد کی جائیں گی ان کی منتظمین خواتین کو اس مسئلے کے حوالے سے آگاہی دیں گے۔ کراچی میں تحریک نسواں کی بانی شیما کرمانی کی ڈانس کے ذریعے عورتوں کوتحریک دینے کی ایک دلیرانہ کوشش کریں گی جبکہ دیگر لوگ محافل میں موجود حاضرین کو تشدد کے خلاف کامیاب جدو جہد کی کہانیاں سنائیں گے۔ مگر وہ گنی چنی چند عورتوں تک ہی پہنچ پائیں گے جو سمند ر میں ایک قطرے جتنی ہوں گی۔

سو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ پاکستان میں تشدد جاری ہے اور عورتیں اس کا شکار ہو رہی ہیں۔ عورت فاؤنڈیشن کی طرف سے ہرسال بڑی محنت سے اکٹھے کئے گئے اعداد وشمار سے واضح ہے کہ ایک طویل اور مستقل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سال 2011ء میں، کہ بس اعدادوشمار اسی سال کے لئے دستیاب ہیں، میں 8539 عورتیں تشدد کا شکار ہوئیں اور یہ تشدد میں اضافے کے رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ 2008ء میں یہ تعداد 7571تھی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بہت سے واقعات کا اندراج نہیں ہوتا اور بے شمار کا تو کہیں ذکر بھی نہیں ہوتا۔

جنسی زیادتی اور غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل جیسے سنگین جرائم کے خلاف اگر بڑے بڑے مظاہرے نہیں ہوتے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ سنگین واقعات نہیں ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں عورتوں پر تشدد سے کتنی بے حسی پائی جاتی ہے  اوریہ کہ خود عورتیں کتنی بے بس ہیں۔  ایسی صورت حال میں کسی کو کیا پڑی کہ حالات بدلنے کی کوشش کرے خاص طور پر اگر حالات اُس کے فائدے میں ہوں؟ اگرچہ قوانین بنوانے ، خاص طور پر گھریلو تشدد کے خلاف، کی بہت اہمیت ہے ، مگر یہ بھی بہت اہم ہے کہ عورتوں کی حیثیت  بہتر کرنے کے لئے اور اُن کو با اختیار بنانے کے لئے سماجی سطح پر شعور پیدا کر نے کے لئے جامع کوششیں کی جائیں۔

تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ موجودہ صورت حال ملک کے لئے نقصان دہ نہیں خاص طور پر بین الاقوامی سطح پر اس کی حیثیت کے حوالے سے۔

ایک نئی کتاب "جنس اور امن عالم " میں امریکی پروفیسر ولیری ہڈسن نے کچھ اہم نکتے اُٹھائے ہیں۔ اُن کے مطابق جو ملک اپنی عورتوں اور بچیوں کے خلاف تشدد میں کمی پر توجہ مرکوز کر لیتے ہیں ، اُن ملکوں کے جنگوں میں کود پڑنے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ مصنفہ نے جنسی زیادتی، گھریلو تشدد ، دیگر سماجی مسائل اور نام نہاد قومی سلامتی کے تقاضوں میں قریبی تعلق پایا ہے۔

جیسے جنگ ایک ملک کی طرف سے دوسرے ملک(دشمن) سے خطرے کا اظہار ہے، بالکل اسی طرح عورتوں کے خلاف تشدد ایک مرد کی طرف سے دوسری ذات یعنی عورت سے عدم تحفظ کا اظہار ہے۔ درحقیقت صنفی برابری کے حوالے سے اس تصور کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

اردو ترجمہ: سفیر اللہ خان

زبیدہ مصطفی

www.zubeidamustafa.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025