نظریات کی جنگ
حال ہی میں فورم فار سیکولر پاکستان کی جانب سے "جمہوریت اور سیکولرازم" کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں دو بنیادی حقائق سامنے آئے-
اولین تو یہ کہ سیکولرازم کے بغیر جمہوریت ممکن نہیں اور دوسرے یہ کہ قومی جمہوری تحریک کے بغیر نہ تو جمہوریت پنپ سکتی ہے اور نہ ہی پروان چڑھ سکتی ہے-
سیمینارکے بنیادی مقرر آئی-اے رحمٰن نے جو ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے جنرل سکریٹری بھی ہیں، اس بات کی وضاحت مختصر لیکن جا مع الفاظ میں کی-
اس موقع پر تمام ہی مقررین نے انتہائی عمدگی کے ساتھ ان خطرات کی نشان دہی کی جن کا سامنا پاکستان میں سیکولرزم کے حامیوں کو طالبانائزیشن کی جانب سے لاحق ہے-
سامعین کے نقطۂ نظرسے، جس میں زیادہ ترہم خیال آزاد مکتبۂ فکر کے لوگ شامل تھے اور اچھی خاصی تعداد میں یہاں آئے تھے ---- اس لحاظ سے کہ اس قسم کی علمی نوعیت کی مجالس میں جس تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں ---- مقررین نے اپنی تقریروں میں کوئی نئی بات نہیں کہی تھی-
سیکولرازم کی حمایت میں اس قسم کے نعرے زمانۂ دراز سے بلند کئے جاتے رہے ہیں- اس ضمن میں سبط حسن کی کتاب "دی بیٹل آف آئیڈیازان پاکستان" (پاکستان میں نظریات کی جنگ) پڑھئے جو 1986 میں شایع ہوئی تھی، آپ کو پتہ چلیگا کہ سیکولرزم کا مطا لبہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے-
اس کے باوجود میں یہ کہونگی کہ اس قسم کے نظریات کو دوبارہ تازہ کرنے کا خیال اتنا برا بھی نہیں ہے کیونکہ اس سے ان لوگوں کے یقین کو قوت ملیگی جو اس کے حامی ہیں اور ان لوگوں کی یادیں تازہ ہونگی جو شائد اپنی تاریخ کو بھول چکے ہیں
لیکن جس اہم مسئلہ کی جانب رحمٰن صاحب نے توجہ دلائی وہ ہے آزاد مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی ناکامی جو عوام میں یہ شعور اور آگاہی نہ پیدا کر سکے کہ سیکولرزم کی اہمیت اور افادیت کیا ہے- بہت سارے سامعین کی نظروں سے یہ نکتہ شائد اوجھل رہا ہو کیونکہ سیمینار کا سارا زور ان لوگوں پر رہا جو پہلے ہی سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر ریاست مذہبی امور میں غیر جانب دار نہ رہے تو پھر جمہوریت کے جڑ پکڑنے کے امکانات بھی معدوم ہو جاتے ہیں -
میری خواہش تھی کہ اس بات کا ذکر زیادہ ہوتا کہ ہم اس پیغام کو پھیلانے میں کیوں ناکام رہے - ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی حکمت عملی پر ازسرنو غور کریں -حقیقت تو یہ ہے کہ آج سیکولرزم کے حامی دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ مذہبی پارٹیوں نے انھیں چالاکی سے ایک ایسے جال میں پھنسادیا ہے جس سے نکلنے کیلئے انھیں یہ یقین دہانی کرانی پڑرہی ہے کہ وہ اسلام دشمن نہیں ہیں جیسا کہ ان کے حریف انھیں ثابت کرنا چاہتے ہیں -
ان کا مطالبہ سیدھا سادہ ہے: ریاست غیر جانبداری سے کا م لے اور اس کی پالیسیاں جمہوریت پر مبنی ہوں ----- یعنی قانون کی حکمرانی ، انسانی حقوق اور سماجی عدل و انصاف - سیکولرزم کے حامیوں کو جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اگروہ اپنے ہاتھ مظبوط کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے نظریات کی بقا کیلئے عوام کی حمایت حاصل کرنی ہوگی جو عوامی تحریک کے ذریعہ ہی ممکن ہے - عوام کو سیکولرزم کا مفہوم بتانا ہوگا - ہم آمریت کے سائے میں اتنا طویل عرصہ گزار چکے ہیں کہ شائد ہم یہ بھول چکے ہیں کہ کسی بھی نظریے کو پھیلانے کیلئے عوام کی حمایت ضروری ہے -
دوسرے یہ کہ یہ من گھڑت خیال بھی پھیلایا جا رہا ہے کہ ہمارے عوام تعصب کا شکار ہیں اور وہ اختلاف رائے کو برداشت نہیں کر سکتے ----- وہ متعصب ہیں نیز مذہبی معاملات میں کٹر اور انتہا پسند ہیں - میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتی - یہ صحیح ہے کہ ایک چھوٹی سی اقلیت ایسی ہی ہے لیکن اب بھی ایسے لوگ اکثریت میں ہیں جو عقل و فہم سے کام لیکر سیکولرزم کے حامیوں کی باتوں کو سننے کیلئے تیار ہونگے - لیکن اس کیلئے ہمیں ان سے بات کرنا ہوگی اور ان سے رابطے قائم کرنے ہونگے -
اپنے عوام کے بارے میں ----- خاموش اکثریت ---- کے بارے میں مثبت سونچ اپناتے ہوئے میں یہ کہونگی کہ آج تک انسے کسی نے پوچھا ہی نہیں ہے کہ ان امور کے بارے میں انکا نقطۂ نظر کیا ہے - ہو سکتا ہے وہ قدامت پسند اور مذہبی بھی ہوں لیکن ان میں سے اکثر عوامی معاملات پر رواداری اور عقل و دانش کا مظاہرہ کرتے ہیں - آپ کو شائد حیرت ہو کہ سڑک پر چلنے والے ایک غریب انسان کی سونچ ان تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے افراد سے کہیں زیادہ معقول نظر آتی ہے جو آج بھی اپنے ماضی سے چمٹے نظر آتے ہیں -
یقیناً بات چیت کا یہ عمل ایک عام انسان کی ذہنی سطح کے مطابق ہونا چاہئے - اس بات کو یاد رکھئیے کہ ہمارے عوام تعلیم یافتہ نہیں ہیں - ان میں سے اکثر تو لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے لیکن وہ اپنے مسائل کو بہتر طور پر سونچ اور سمجھ سکتے ہیں -
اس ضمن میں ڈاکٹر روپ ریکھا ورما کا حوالہ دینا بے محل نہ ہوگا جوہندوستان کی ایک سلیم الطبع اورسید ھی سادی فلسفہ کی عالم ہیں - چھ سال پہلے لکھنؤ میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی - ڈاکٹر ورما شعبہ فلسفہ کی سربراہ اورلکھنؤ یونیورسٹی کی وائیس چانسلر تھیں اور 2003 میں انہوں نے یونیورسٹی کی ملازمت سے سبکدوش ہو کرسنجیدگی کے ساتھ سماجی سرگرمیوں میں فعال حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا -
وہ جو ابتک نامور ہندوستانی اور غیر ملکی جرائد میں کثیر تعداد میں تحقیقاتی مضامین لکھتی رہی تھیں اب عوامی سطح پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے ،عورتوں کو بااختیاربنانے ، بنیادی تعلیم اورسیکولرزم کو پھیلانے کیلئے کام کرنے لگیں - جب انکا تعلق ساجھی دنیا سے ہوگیا ، جواس میدان میں کئی برس سے کام کررہی تھیں توڈاکٹرورما نے اپنے کاز کی تکمیل اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ایک حکمت عملی ترتیب دی-
"ہم کوئی عوامی تنظیم نہیں ہیں لیکن ہم عوام کیلئے کام کرتے ہیں - ہم عوام کو متحرک کرنے کیلئے ان میں پمفلٹ تقسیم کرتے ہیں ، بازاروں میں جاتے اور دکانداروں سے بات چیت کرتے ہیں - ہم ان کے مسائل پر بات کرتے ہیں (جن پر ہم کام کر رہے ہیں) اور ریلیاں نکا لتے ہیں - دوسرے یہ کہ اگر ہمیں نوجوانوں کی مدد درکار ہو تو پھر ہم اسکول اور کالج جاتے اور ان سے بات چیت کرتے ہیں - ہم تعلیم یافتہ اورنا خواندہ دونوں ہی قسم کے لوگوں کیلئے کام کرتے ہیں " اوراس سے بھی بڑھ کرتو یہ کہ ساجھی دنیا عوامی سطح پر بھی چھان بین اور تحقیق کرتی ہے اور یہی اسکی سرگرمیوں کا مرکز ہے -
پاکستان میں بعض تنظیموں اور پارٹیوں نے (میرے ذہن میں حال ہی میں قائم شدہ عوامی ورکرز پارٹی اور پاکستان انسٹیٹیوٹ فار لیبر ایجوکیشن ریسرچ کا نام آرہا ہے) جو اپنا پیغام عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک انکا دائرہ عمل محدود ہے- سیکولرزم کی روح کوسبط حسن نے مذکورہ بالا کتاب میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ پاکستان میں سیکولرزم کا مستقبل جاگیرداری سماجی نظام کے خاتمے سے وابستہ ہے جسے سامراج کنٹرول کرتا ہے ، جسکی نمائندگی غیر ملکی تجارتی ادارے کا مقامی بورژوازی ایجنٹ ، بڑے زمیندار ، ملٹری جنتا اور مُلاّ کرتے ہیں - یہ نہایت طاقتور دشمن ہیں اور صرف عوام ہی اپنی اکثریت سے ان کا مقابلہ اور ان کو نیست ونابود کر سکنے کی طاقت رکھتے ہیں-
ترجمہ: سیدہ صالحہ