دیوار گریہ
عنوان سے کہیں آپ یہ نہ سمجھ بیٹھیے گا کہ اس مرتبہ ہم یروشلم کی اس قدیم ‘دیوار گریہ’ کا تذکرہ کرنے جارہے ہیں، جس کے سامنے کھڑے ہو کر مذہبی رسوم کے طور پر یہودی اور عیسائی آنسو بہاتے ہیں۔
یہ ہمارے اپنے شہروں کی وہ دیواریں ہیں جو برسوں سے گریہ کناں ہیں۔ لیکن ان کی یہ گریہ وزاری شاید ہی کسی کو سنائی دیتی ہو۔ چند شہریوں نے ان دیواروں کی وہ حالت بنائی ہے، ہمارے خیال میں اس پر انہیں کم از کم رونے کا حق تو حاصل ہونا ہی چاہیے۔
جی ہاں!آپ درست سمجھے، ہم وال چاکنگ اور پوسٹروں سے آلودہ دیواروں کی بات کررہے ہیں۔
محترم قارئین کرام !چونکہ ہم کراچی میں مقیم ہیں، اس لیے اگلی سطور میں کراچی کی ہی دیواروں کا تذکرہ کریں گے۔
دوسرے شہروں کے رہنے والے اپنی مقامی دیواروں کا مطالعہ کریں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ صورتحال کم وبیش یکساں ہی ہوگی۔
کچھ عرصہ قبل ناتھہ خان گوٹھ کے بس اسٹاپ کے قریب سے گزرتے ہوئے ایک سرکاری ادارے کی بیرونی دیوار پر ہماری جو نظر گئی تو دیکھا کہ بڑے بڑے حرفوں میں تحریر تھا:
خبردار امریکہ
لکھنے والے موصوف شاید انتہائی عجلت میں تھے، یہی وجہ رہی ہو کہ انہوں نے اتنے لکھے کو کافی سمجھا، یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں یہ اہم کام سرانجام دے رہے تھے اور اچانک چوکیدار کے آجانے پر بھاگ کھڑے ہوئے۔
تاریکی کا اندیشہ ہم نے یوں ظاہر کیا کہ لکھنے والے صاحب یہ دیکھنے سے یقیناً قاصر رہے ہوں گے کہ اس دیوار پر پہلے سے کوئی جملہ بھی تحریر ہے، اور وہ جملہ تھا:
پیچھے بیت الخلاء ہے !
چنانچہ جملہ یوں مکمل ہوا :
‘خبردار امریکہ!پیچھے بیت الخلاء ہے’
اس جملے کی تکمیل کے پس پردہ کیا صورتحال رہی ہوگی، اس کا اندازہ ہم نے تو باآسانی کرلیا، لیکن ایسے لوگ جن کا شمار ‘ہماری طرح’کے ‘صاحبانِ بصیرت’ میں نہیں ہوتا، ان کے بارے میں ہمارے دیرینہ دوست نون کا یہ خدشہ بجا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس دیواری نعرے کو پڑھنے کے بعد یہ بھی تو خیال کرسکتے ہیں کہ بددعاؤں، کوسنوں، بڑھکوں، مظاہروں، جلسوں، جلوسوں، ہڑتالوں اور پتلے جلانے سے شاید امریکہ کو ڈرانے اور خبردار کرنے میں ناکامی کے بعد اب بیت الخلاء کا کوئی ٹوٹکا آزمایا جائے گا۔
ٹوٹکے سے خوب یاد آیا کہ صدر کے قریب ایک دیوار پر تحریر تھا۔
امریکہ کا ایک علاج
اس دیواری نعرے کے اگلے الفاظ پر کوئی صاحب ایک جہازی سائز کا پوسٹر چسپاں کر گئے تھے، چنانچہ جملہ یوں مکمل ہوا:
‘امریکہ کا ایک علاج ، ُاڑن چھو چورن
گیس اور بادی امراض میں اکسیر ہے’
کراچی کی ایک مشہور چورنگی، ناگن چورنگی !اسم بامسمّیٰ ہے۔ کتنے ہی بےچارے انسان یہاں ٹریفک کے حادثوں میں ہلاک ہوئے۔ اللہ کا شکرہے کچھ برس قبل یہ چورنگی ختم ہوگئی تھی اور یہاں شاندار فلائی اوور موجود ہے۔
یہاں اردگرد کی دیواروں پر برسوں سے اس تسلسل کے ساتھ نعرے لکھے جارہے ہیں اور پوسٹر چپکائے جارہے ہیں کہ اب ان کامطالعہ کیا جائے تو اس قسم کی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں:
مایوس نوجوان متوجہ ہوں!۔۔۔۔۔ شادی سے پہلے یا شادی کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو چلو ملتان چلو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچوں کے مستقبل کی تعمیر کے لیے ہم سے رابطہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتحاد سیمنٹ ایجنسی! ریتی ،بجری ، سیمنٹ ،سریے کا واحد مرکز ۔۔۔۔۔۔۔۔
طاقت وصحت کا خزانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی پنجابی فلم، جٹ دا کھڑاک ۔۔۔۔۔۔۔ ایک کیپسول ہی کافی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مہینے میں سلائی اور کٹنگ سیکھنے کے لیے تشریف لائیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ القریش لحم فروش ، بڑے اور چھوٹے گوشت کا مرکز ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم آپ کے پرانے فرنیچرز کو بالکل نیا کردیں گے، ہم سے رابطہ کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجیز بیوٹی پارلر۔۔۔۔۔۔۔
گنج پن کا شرطیہ علاج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیشنل کا ٹریکٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے مطالبات پورے کرو ورنہ!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھماکہ ۔۔۔۔۔۔ اچار کی مصنوعات میں ایک ہی نام ‘دھماکہ اچار ’
خودکشی نہ کریں، اپنا دکھ ہم سے ۔۔۔۔۔۔۔ CNG کروائیں گوگا آٹوز۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی صاحب پہلی مرتبہ کراچی تشریف لائیں اور کراچی کے چند علاقوں کا وزٹ کریں تو امید ہے کہ سب سے پہلے یہی سوال کریں گے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ‘پرفیوم چوک ’کہاں ہے ؟
اس لیے کہ کراچی کی چھوٹی بڑی، اہم غیر اہم تمام شاہراہوں کے ساتھ ساتھ دیواروں پر جگہ جگہ اس قدر کثرت سے یہ جملہ دیکھنے کو ملتا ہے:
خوشبوؤں کا مرکز
پرفیوم چوک
گلستان جوہر
جسے دیکھ کر ذہن میں یہ خیال بھی آسکتا ہے کہ شاید کراچی کو پیرس بنانے کے دعووں کے پورے ہونے کا وقت قریب ہے۔
ہمارے دوست نون کا کہنا ہے کہ کراچی کیا پاکستان کے بیشتر شہر پیرس سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ ہم نے یہ بات سنی تو نون کی طرف یوں دیکھا جیسے اس کے سر پر سینگ تلاش کررہے ہوں، لیکن نون نے ہماری نظروں کا اثرلیے بغیر نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا:
سترہویں صدی کے پیرس سے، جب پیرس کی گلیاں غلاظتوں سے اٹی رہتی تھیں۔
بحر حال! نجانے یہ کون صاحب ہیں جو گلستان جوہر کے پرفیوم چوک کی شہرت چہاردانگ عالم میں پہنچا دینا چاہتے ہیں۔ جس کے چند کلومیٹر کے فاصلے سے ہی شدید بدبو کے بھبھکے ناک کے راستے دماغ میں داخل ہو کر اسے منجمد کرنے لگتے ہیں۔
قوم کے ہمدردوں کا یہ عمل یعنی پرفیوم چوک سے متعارف کرانے کے لیے وال چاکنگ پچھلے دس پندرہ سالوں سے جاری ہے، لیکن پرفیوم چوک بھی اپنی مکمل حشر سامانیوں کے ساتھ اسی طرح بدبو کے بھبھکے کئی کلومیٹر دور تک ‘نشر ’ کررہا ہے۔
جب سرکاری اداروں کی جانب سے وال چاکنگ مٹانے کی مہم چلائی جاتی ہے یا اعلیٰ سطح کے کسی (نون اعلیٰ سطح کے بجائے گھٹیا سطح کہتا ہے) فرد کاوزٹ ہوتا ہے تو دیواروں پر لکھے نعرے اور اشتہارات تو مٹ جاتے ہیں لیکن اکثر جگہ ‘خوشبوئوں کا مرکز ، پرفیوم چوک’ پر سفیدی اس طرح پھیری جاتی ہے کہ بعد میں بھی وہ باآسانی پڑھا جا سکتا ہے۔
گلستان جوہر کے پرفیوم چوک پر ہی موقوف نہیں، کراچی شہر میں ایسی بہت سی دیواریں ہم نے دیکھی ہیں جن پر تحریر تھا ‘یہاں کچرا پھینکنا منع ہے ۔ پھینکنے والے پر جرمانہ کیا جائے گا’ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انہی دیواروں کے سائے میں کوڑے کرکٹ کے پہاڑ بھی ہم نے ملاحظہ کیے۔
کراچی ہی نہیں ایسی دیواریں تو ملک کے کسی بھی شہر میں دیکھی جاسکتی ہیں، جن پر تحریر ہوتا ہے کہ
‘دیکھو گدھا پیشاب کررہا ہے’
اور انہی دیواروں کی طرف منہ کرکے بیٹھے ہوئے کئی لوگ بھی اکثر دیکھے جاسکتے ہیں۔
ایک مہنگے ترین پرائیویٹ اسکول کی دیوار پر اسکول کے نام اور مونو گرام سے ذرا اوپر تحریر تھا۔
یا اللہ میرے علم میں اضافہ فرما ۔
نون نے اسے دیکھنے کے بعد ہم سے کہا ‘دراصل اسکول کا مالک صرف اس علم میں اضافہ چاہتا ہے کہ اس کے بینک بیلنس میں کس قدر ماہانہ اضافہ ہو رہا ہے؟
ہم جب بذریعہ ٹرین پشاور گئے تو راستے بھر نظر آنے والی تمام دیواروں پر تحریر اشتہارات کو دیکھ کر یہی خیال آیا کہ ملک کے تمام اشتہاری حکیم یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ شاید ملک کی پوری آبادی بشمول خواتین، مردانہ امراض میں مبتلا ہے۔
بوجوہ ہمیں ایک ایسی مسجد میں جہاں ایک اقامتی مدرسہ بھی تھا، بیت الخلاء استعمال کرنے کی حاجت ایک مرتبہ پیش آئی۔ اس بیت الخلاء کی دیواریں بھی نعرے بازیوں سے محفوظ نہ رہ سکی تھیں۔ سپر پاورز کے حکمرانوں کے لیے ایسی ایسی دھمکیاں تحریر تھیں، گویا وہ حکمران اسی بیت الخلاء کو استعمال کرتے ہیں۔
ایک طالبعلم اپنے مخالف مسلک کے لیڈر کی والدہ محترمہ کے ساتھ کچھ غلط قسم کی رشتہ داری قائم کرنے کا خواستگار تھا، تو دوسرا اُس کی بہن کے ساتھ۔
جواب میں قبلہ موصوف کے کیا تاثرات تھے، اس کے بارے میں کہیں کچھ درج نہیں تھا۔
مدرسے کے بعض اساتذہ اور طالب علموں کی کچھ خصوصیات ایسے الفاظ میں تحریر تھیں جنہیں عرفِ عام میں گالیاں کہتے ہیں۔
یہیں پر ہمیں بعض مصوروں کے وہ فن پارے بھی دیکھنے کو ملے جو فنی اعتبار سے تو بھارتی مصور ایم ایف حسین کے شاہکار سے بھی اعلیٰ درجے کے معلوم ہوئے۔ ان فن پاروں میں بعض انسانی اعضاء کو ان کے تناسب سے کہیں زیادہ بڑا بنا کر دکھایا گیا تھا اور کہیں کہیں انہیں تھری ڈی انداز میں دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔
شاید یہ وہ طالبعلم رہے ہوں گے جو شبِ زفاف کے احکامات کا درس پڑھ رہے ہوں گے؟
سنا ہے کہ بعض مدرسوں میں اس کے پریکٹیکل کی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے، کہیں حلالہ کی صورت میں تو کہیں کسی اور صورت میں۔
مذکورہ ڈایا گرام بھی ان کے سلیبس کا حصہ تھیں یا نہیں، اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
تبصرے (1) بند ہیں