• KHI: Asr 5:03pm Maghrib 6:48pm
  • LHR: Asr 4:35pm Maghrib 6:22pm
  • ISB: Asr 4:41pm Maghrib 6:28pm
  • KHI: Asr 5:03pm Maghrib 6:48pm
  • LHR: Asr 4:35pm Maghrib 6:22pm
  • ISB: Asr 4:41pm Maghrib 6:28pm

ایک ادھورا مشن

شائع December 25, 2012

اقبال حیدر۔— فائل فوٹو
اقبال حیدر۔— فائل فوٹو

یہ بات باعث مسرت ہے کہ حکومت پاکستان نے سابقہ وزیر قانون اور سینیٹر اقبال حیدر کو بعد از مرگ سویلین ایوارڈ سے نوازا اور انھیں اب ملک کے انسانی حقوق اور امن کے سب سے بڑے علمبردارکی حثییت سے تسلیم کیا -

ایوارڈ دینے کا دن بہت مناسب تھا یعنی 10 دسمبر جو انسانی حقوق کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے - ایوارڈ اس جلسے کے فورا ہی بعد دیا گیا جو اعتراف خدمات کے فیصلے میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور متعدد سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے گزشتہ بدھ کراچی پریس کلب میں منعقد کیا گیا تھا -

جس دن یہ جلسہ منعقد ہوا اقبال حیدر کو ہمارے درمیان سے رخصت ہوئے تین ہفتہ سے زیادہ گزر چکے تھے - اس کے باوجود اس موقع پرانھیں کھو دینے کا شدید احساس طاری تھا جس نے ان کے دوستوں اور مداحوں کو بڑی تعداد میں اکٹھا کر دیا تھا - جلسہ میں ان کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی اور ان کی ان بے شمار بامقصد سرگرمیوں کو یاد کیا گیا جسے وہ جذبہء سرشاری سے انجام دیا کرتے تھے -

جیسے جیسے مقررین اس انسان کو زبردست خراج عقیدت پیش کر رہے تھے جو اصولوں اور قانون کی حکمرانی کا علمبردار تھا اور مشکلات سے پرزمانے میں حوصلہ اور یقیں و اعتماد کا اظہا رکرتا تھا ، یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کسی لمحے یہاں چلے آئینگے اور ظلم و استبداد کی داستانیں سنکران کی پیشانی پر بل پڑجائینگے -

اگرچہ یہ ایک جذباتی شام تھی جہاں نمناک مسکراہٹ کربناک غصّے کے ساتھ ملکر اپنے معاشرے کی صورت حال پرافسردہ تھی جس نے اقبال حیدر کو شدّت کے ساتھ آمادہ پیکار کر دیا تھا - اس جلسہ کو طویل عرصہ تک یاد رکھا جائیگا جس نے حاضرین جلسہ کے جذبہء شوق کو بیدارکیا تھا اورجہاں وفورجذبات کے ساتھ عہد وپیماں کئے گئے -

ایک طرح سے یہ جلسہ اس عہد کی تصدیق نوتھا جس کیلئے اقبال حیدر سرگرم عمل تھے - پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ ان کی محبت اور سب سے بڑھ کر تو قانون کی بالادستی ، انسانی حقوق اور امن کیلئے ان کی جدوجہد شک و شبہ سے بالاترتھی- علاوہ ازیں، وہ ان تمام مقاصد کے حصول میں ایک ایسے جذبہء سرشاری سے منہمک تھے کہ اس کی مثال بہت کم ملتی ہے-

گو کہ وہ کبھی کبھار اس اخبار کیلئے لکھا کرتے تھے اور مختلف مسائل پر جنھیں وہ شدّت کے ساتھ محسوس کرتے اپنے نقطہء نظر کااظہارکیا کرتے تھے ، ان کی تحریروں میں بلوغت نظر آتی تھی اوران کے دلائل میں وزن ہوتا تھا - ان کی شخصیت کے دو پہلو تھے - بحیثیت مصنف وہ ٹھنڈے مزاج کے انسان تھے اور انھیں اپنے جذبات پر پورا اختیار تھا - لیکن جہاں عمل کا سوال ہوتا انمیں تیزی اور تندی نمایاں ہوتی -

مجھے یاد ہے کہ وہ کس طرح ڈان کے دفتر میں میرے کمرے میں آتے تھے ----- ان کا کمرہ ہارون ہاؤس کی دوسری منزل پر تھا ----- اور اس مضموں کے موضوع پر برملا اپنے خیالات کا اظہا رکرتے جس پر وہ لکھنا چاہتے تھے - انکی آوازاتنی بلند ہوتی کہ میں اضطراب کے ساتھ ان کے مضموں کا انتظار کرتی - مجھے اندازہ نہ ہوتا کہ مضموں کی شکل کیا ہوگی. اور اتنے طویل مضموں کو میں کسطرح ایک مختصر سی جگہ میں سمو سکونگی - لیکن جب مضموں مجھ تک پہنچتا تو اس میں جامعیت ہوتی اور وہ ایک قانونی ماہر کی اعلی ذہا نت کا عکاس ہوتا -

پچھلے چند مہینوں میں جبکہ پاکستان مذہبی انتہا پسندی کی لعنت سے گزر رہا تھا اقبال حیدر کی نظر سیکولرازم پر تھی - وہ اس مسئلہ کو شدّت سے محسوس کر رہے تھے اور پوری قوت کے ساتھ اس پر سوچ بچار کر رہے تھے - اپنی سوچ کو انہوں نے فورم فار سیکولر پاکستان کا نام دیا جس کا اعلان جون 2012 میں کراچی پریس کلب میں کیا گیا جہاں ہم میں سے کچھ لوگ جمع تھے ----- شیر باز مزاری اور حاصل بزنجو بھی موجود تھے ----- جہاں اس مسودہ کو پیش کیا گیا جسے انہوں نے انتہائی احتیاط کے ساتھ تیار کیا تھا اور ہمیں بھیجا تھا -

انہوں نے واضح طور پر بتایا تھا کہ "سیکولرزم تمام مذاہب کو تسلیم کرتا ہے اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ مساوی سلوک کا حامی ہے"- یہ انھیں "جگہ کی ضمانت دیتا ہے اور اس بات کی حمایت کرتا ہے کہ اس جگہ کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جائے"-

مسودہ میں کہا گیا ہے: " پاکستان نے اپنے سفر کی ابتدا غلط ترجیحات سے کی جس کا حتمی مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو ایک قومی سیکوریٹی اسٹیٹ بنایا جائے جبکہ سماجی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا "-

وہ اس فورم کو سول سوسائٹی کی تنظیم کے طورپررجسٹر کروانا چاہتے تھے اوراس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک درخواست کی حمایت حاصل کرنے کیلئے لوگوں کو متحرک کرنا شروع کردیا تھا - وہ اس درخوا ست کو جو سیکولرزم کی حمایت میں تھی سپریم کورٹ میں جمع کرانا چاہتے تھے - جس کاز کے وہ علمبردار تھے اس کیلئے عوام کو اکٹھا کرنے کا انکا اپنا ایک انداز تھا - اس عمل کے دوران ان کی نظر ہر فرد پر رہتی تھی - یہی وجہ تھی کہ کراچی پریس کلب کے جلسے میں تمام مقررین نے اپنے اپنے منفرد تجربات بیا ن کئے -

مجھے یقیں ہے کہ گزشتہ بدھ کے جلسے میں جو سامعین موجود تھے وہ خود بھی اپنے اپنے تجربات بیان کرنا چاہتے تھے -

یہ تھا ان کی شخصیت کا سحر - اس حکمت عملی نے نتائج پیدا کئے - چنانچہ حیرت کی چنداں ضرورت نہیں کہ جلسے میں یہ عہد و پیمان کئے گئے کہ انہوں نے جس کام کو شروع کیا تھا اسے جاری رکھا جائیگا - گرچہ اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن انکا جذبہ زندہ ہے -

اس بات کا زبردست احساس موجود ہے کہ انکے کام کو جاری رکھنا ضروری ہے - ایک مقرر نے فی الفور اس خیال کا اظہار کیا کہ اقبال حیدر کے مشن کو پورا کرنے کیلئے بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے- اسی لئے سیکولرزم پر انکے نظریات کی اتنی اہمیت ہے - اسی لئے انہوں نے یقیں و اعتماد کے ساتھ مذھب کے نام پر ہونیوالی انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں کے خلاف برملا طور پر اپنی آواز بلند کی - مظلوموں کی حفاظت اور انکی حمایت کے لئے ایسا کرنا ضروری تھا - لیکن ہماری نظر اس نظام کی اصلاح پر بھی رہنی چاہئے ----- سماجی ، سیاسی اور معاشی نظام کی اصلاح پر -

جب مذھب پر غیر ضروری زور دیا جائے تو اس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ ہلاکتیں ہوتی ہیں جیسا کہ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں - مجرمین میں صرف پاکستانی طالبان اور لشکر جھنگوی وغیرہ جیسی تنظیمیں ہی شامل نہیں ہیں - وہ لوگ بھی مورد الزام ہیں جو ایک مذہبی نظریاتی ریاست تشکیل دینے کے بہانے انتہا پسندی کی آگ کو بھڑکا رہے ہیں -

اور اگر پاکستانی ان ہلاکتوں کی مذمت کرنے میں ناکام ہوجائیں ------ خواہ مظلوم شیعہ ہو یا احمدی ----- وہ سب کے سب مورد الزام ہیں - میں سوچتی ہوں کہ اگر اس وقت اقبال حیدر زندہ ہوتے تو وہ چھوٹی سی محضر زہرہ کے بارے میں کیا کہتے جو حال ہی میں فرقہ واریت کا نشانہ بنی اور جس کے نام کو شائد خاموشی سے بھلادیا جائیگا -


 ترجمہ: سیدہ صالحہ

زبیدہ مصطفی

www.zubeidamustafa.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025