بنگالی، ہندوستانی، مسلم، غریب، کسان
پاکستانی بنگلہ دیش سے آنکھیں ملانے سے کتراتے ہیں- وہ 1970 کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک گھٹیا انداز بیان کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ سب ایک بہت بڑی سازش تھی- ہو سکتا ہے سازش ہوئی ہو- لیکن کس نے کس کے خلاف سازش کی اور کب؟ بنگالی کیا چاہتے تھے؟ وہ اس انتہائی حد تک کیونکر پہنچے جس کے بعد راستے الگ ہوگئے؟
یہ مضمون ان سلسلہ وار مضامین کا دوسرا حصّہ ہے جو پاکستان میں 1971 میں رونما ہونے والے واقعات کی روشنی میں اس ملک میں جمہوریت کی نشوونما کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے- پہلا حصّہ یہاں دیکھا جا سکتا ہے

یہ بات فطری ہے کہ ہم سب کی بہت سی شناختیں ہیں- اپنی مختلف شناختوں کے باوجود ہم امن و آشتی کے ساتھ رہ سکتے ہیں، آسودگی سے زندگی گزار سکتے ہیں. یا پھر ایک دوسرے سے جھگڑ سکتے ہیں- ان کا باہمی اثرو نفوز پیچیدہ ہے اور ان کی سیاست تو اور بھی پیچیدہ، الجھی ہوئی اور مکرو فریب سے پر ہے-
با الفاظ دیگر ہم بنگالی مسلمان ہو سکتے ہیں، پنجابی مسلمان ہو سکتے ہیں یا پھر مسلم کسان، ہندو کسان، پنجابی کسان یا بنگالی کسان ہو سکتے ہیں- ان سب کے سیاسی عزائم اور خواہشات کسی نقطہ پر مل بھی سکتے ہیں اور کسی نقطہ پرعلیحدہ بھی ہو سکتے ہیں- کسی سیاسی پارٹی یا رہنما کی کامیابی کا انحصار اس کی اس اہلیت پر ہوتا ہے کہ وہ کثیرالطرفہ سیاسی مفادات اورمقاصد کو پیش نظررکھے اور انھیں کسی مشترکہ نصب العین کی خا طراکٹھا کرے-
اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ کبھی ملنے اور کبھی علیحدہ ہونے کا یہ عجیب وغریب مظاہرہ کب کب اور کیونکر ہوا تو آپ کو ہماری تاریخ کے اوراق الٹنے ہونگے اورآپ کو جناب ابوقاسم فضل الحق سے ملنا ہوگا- جس زمانے میں وہ غیر منقسم بنگال کے وزیراعظم تھے قائد اعظم نے انھیں 23 مارچ 1940 کو منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ (اے آئی ایم ایل) کے عمومی اجلاس میں قرارداد پاکستان پیش کرنے کے لئے منتخب کیا تھا-
پنجاب، سندھ، پختونخوا، بلوچستان اور ہندوستان کے دیگر علاقوں سے شرکت کرنے والے مسلمان سیاستدانوں نے اجلاس میں مذکورہ قرار داد کی حمایت کی تھی اور یہ مسلم لیگ کا مقبول ترین نصب العین بن گیا-
ان میں سے چند ہی رہنما فی الحقیقت 1936 کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے تھے لیکن ان سب نے مسلم لیگ کے نصب العین کو اپنا نصب العین بنا لیا تھا-
ان دنوں فضل الحق جو شیر بنگال کے نام سے مشہور تھے غیرمنقسم بنگال میں ایک اتحادی حکومت کی سربراہی کررہے تھے- ان کی کرشک پرجا پارٹی (جس کے لغوی معنی ہیں ایگریکلچرل پیپلزپارٹی) 1936 کے انتخابات میں ریاست کی تیسری بڑی پارٹی کے طور پرابھری تھی- پہلی پوزیشن پر انڈین نیشنل کانگریس اور دوسرے نمبر پر مسلم لیگ تھی- کسی پارٹی کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں تھی اور صرف ایک اتحادی حکومت کا قیام ہی ممکن تھا-
فضل الحق کو مسلم لیگ کی بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ سیاست پسند نہ تھی اور انہوں نے انتخابات کے دوران مسلمان جاگیرداروں اور نوابوں کی اس پارٹی کے خلاف مہم چلائی تھی- وہ اپنی پارٹی کو بنگالی شناخت دینا چاہتے تھے اورانکا خیال تھا کہ ان کی طرح کانگریس بھی جو فرقہ واریت کے خلاف تھی ان کی فطری اتحادی بن سکتی ہے- لیکن غالبا کانگریس کو حق کی کسان سیاست بہت زیادہ "سرخ" نظر آرہی تھی اوراس لئے ان کے ساتھ چلنا کانگریس کو مشکل محسوس ہو رہا تھا-
پرجا پارٹی کے بعض قائدین کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ کمیونسٹ ہیں- بنگالی کسان زمینداروں اور زرعی سرمایہ کاروں کو، جن میں سے زیادہ تر ہندو تھے، اپنا اصل مخالف سمجھتے تھے جبکہ کانگریس کے بہت سے سرگرم حمایتی اسی مراعات یافتہ ہندو طبقہ سے تعلق رکھتے تھے- مزید براں، کانگریس کا زور زیادہ تر ہندو سیاست پر تھا نہ کہ بنگالی، پنجابی وغیرہ وغیرہ پر-
چنانچہ کانگریس نے حق کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکارکردیا اور انہیں مسلم لیگ کی جانب ڈھکیل دیا جو دراصل اسی موقع کے انتظار میں تھی- ایک اتحادی حکومت نے حلف اٹھالیا لیکن چند ہی ہفتوں کے اندر پرجا پارٹی کے ایک حصّے نے خود اپنی پارٹی کے بجٹ اقدامات کی مخالفت کرتے ہوئے کانگریس کا ساتھ دیا -
دوسری طرف پرجا پارٹی کے زیادہ "سرخ" اراکین یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی پارٹی اپنے انتخابی منشورسے منحرف ہو رہی ہے- مقاصد کے اس اختلاف کے نتیجے میں پارٹی ٹکڑوں میں بٹ گئی. پرجا پارٹی کمزور پڑ گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی حکومت کے رہنما کی حثییت سے حق کی پوزیشن بھی کمزورہو گئی- مسلم لیگ پر انکا انحصار روز بروز بڑھنے لگا جس کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ بنگالی سیاست کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا جائے-
قرارداد پاکستان کے منظور ہونے کے کچھ عرصے بعد حق نے دو قومی نظریے کی مخالفت شروع کر دی تھی اور اسکے خلاف کھلم کھلا مہم چلا رہے تھے- لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انھیں ہندوستانی سیاست کے اسٹیج پر مسلم شناخت کی تلاش سے ہمدردی نہیں تھی-
حق جو قائد اعظم سے تین سال بڑے تھے 1913 سے 1916 تک بنگال پراونشیل مسلم لیگ کے سکریٹری اور 1916 سے 1921 تک آل انڈیا سلم لیگ کے صدر تھے- وہ 1920 کی دہائی کے اوائل میں چلنے والی خلافت تحریک کے سر گرم رکن تھے- 1917 میں حق کانگریس کے جوائنٹ سکریٹری بھی رہ چکے تھے (ان دنوں مسلم لیگ اور کانگریس کا بیک وقت رکن ہونا گناہ نہیں سمجھا جاتا تھا) لیکن اس دور کے بہت سے مسلم سیاست دانوں کی طرح وہ مسلم شناخت کے مسئلے کو ہندوستانی قومیت کے وسیع تر تناظر میں دیکھتے تھے-
چند برسوں بعد بہت سے مسلمان رہنما اپنی اس تلاش کو اگلے مرحلے پر لے گئے یعنی ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن لیکن حق اس نظریے کو تسلیم نہ کرسکے-
مسلم لیگ نے "مسلمانوں کے وطن" کے مطالبے کو تمام بیماریوں کا اکسیراعظم قرار دیا اور اس مطالبے نے قبولیت عام حاصل کرلی- پرجا پارٹی کو 1946 کے انتخابات میں سخت ہزیمت اٹھانی پڑی- انھیں صرف چار نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی جن میں سے دو خود انکی اپنی تھی- اس کے برعکس، مسلم لیگ کا خواب پورا ہوا تھا جس نے بنگال میں مسلمانوں کی 117 مخصوس نشستوں میں سے 110 حاصل کرلی تھیں-
مسلم لیگ کے حسین شہید سہروردی نے ریاست میں اپنی حکومت تشکیل دی- اگست 1946میں ہندو-مسلم فسادات پھوٹ پڑے، ہر جگہ خون بہنے لگا اور فرقہ واریت کی سیاست سرحدوں میں تبدیل ہو گئی - حق نے ستمبر 1946 میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکی تھی- وہ تقسیم کے بعد ڈھاکہ چلے گئے اور مشرقی پاکستان کی حکومت میں ایڈووکیٹ جنرل کے فرائض انجام دینے لگے.
وہ اپنی متنوع امنگوں کو اپنی پسند کی سیاست کا رنگ دینے میں ناکام ہو گئے، دوسروں نے انھیں کچل دیا اوران پر سبقت لے گئے-
مسلم لیگ اپنی ترجیحات کے مطابق سیاست کو مذہبی رنگ میں ڈھالنے اور اپنا نصب العین حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی- لیکن پارٹی بنگال کی حمایت کو سمجھنے میں غلطی کا شکار ہوگئی- بنگالی یہ نہیں سمجھتے تھے مسلمان ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ خود کو بنگالی سمجھنا چھوڑ دیں یا پاکستانی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہندو نہ رہیں-
آزادی کے چند ماہ بعد بنگالی طلباء نے اردو کو قومی زبان قرار دینے کے خلاف احتجاج کیا اورمطالبہ کیا کہ انکی زبان کو بھی وہی درجہ دیا جائے- حق بھی اس احتجاج میں شریک ہوئے اور پولیس کی لاٹھی چارج میں زخمی ہوگئے-
دستورسازاسمبلی مسلسل تعطل کا شکار رہی- بنگالی دوسروں کو اپنے سامنے جھکانا نہیں چاہتے تھے- وہ صرف اپنا جمہوری حق مانگ رہے تھے. انکی زبان، انکی ثقافت کا احترام کیا جائے، وہ اپنے وسائل کے مالک ہوں، وفاق اپنے وسائل سے انھیں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے حصّہ دے-
مسلم لیگ کی اشرافیہ یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ مذھب کے جنونی کارڈ کے ذریعہ اپنا کھیل جاری رکھ سکتی ہے- چنانچہ اگر کسی نے اپنے وطن کے لئے حقوق کا مطا لبہ کیا تو اس پر صوبائی تعصب کا الزام لگایا گیا جو پین اسلام کے اعلی نظریات کے منافی تھا- اگر کسی نے وسائل میں اپنا حصّہ طلب کرنے کی جرات کی تو اسے اسلام کی نشاط ثانیہ میں رکاوٹ بننے کا ملزم ٹھہرایا گیا اور اگر کوئی اپنی زبان کے احترام کا مطالبہ کرتا ہے تو یقینا وہ غدار اور ہندوستانی ایجنٹ ہے- نہ تو بنگال کوئی زیردست ریاست تھی اور نہ ہی مسلم لیگ کوئی سامراجی قوت- چنانچہ بنگالیوں نے مسلم لیگ کا دماغ ٹھکانے لگانے کا ارادہ کرلیا.
کراچی کے حکمران، جو ان دنوں دارالحکومت تھا، غالبا جان گئے تھے کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے- پنجاب، سندھ ، پختونخوا اور بنگال کی اسمبلیوں کی مدت جو 1946 میں منتخب ہوئی تھیں، 1951 میں ختم ہونے والی تھی- دستور ساز اسمبلی اسوقت تک نئی ریاست کے وسیع خدوخال پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام ہو گئی تھی اور کسی نئے منصوبے کی غیر موجودگی میں پرانی ریاستی اسمبلیوں کو اپنے فرائض انجام دینے تھے-
پنجاب اسمبلی کے انتخابات مارچ 1951 میں منعقد ہوئے تھے اور اسی سال کے اواخر میں پختونخوا اسمبلی (اس وقت کا صوبہ سرحد) کے انتخابات ہوئے تھے- سندھ میں 1953 کے انتخابات سے پہلے 1951 میں گورنر راج قائم تھا- مسلم لیگ ان تمام انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار ہوگئی. مشرقی بنگال میں بھی 1946 سے ان کی حکومت قائم تھی- نوشتہ دیوار صاف دکھائی دےرہا تھا اور لیگ بس یہی کچھ کر سکتی تھی کہ اگلے انتخابات کو جہاں تک ممکن ہو التوا میں ڈال دے-

با لاخرمشرقی بنگال کی اسمبلی کے انتخابات مارچ 1954 میں منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا- ناراض بنگالی مسلم لیگیوں کی ایک بڑی تعداد نے 1949 کےاوائل ہی میں اپنی پارٹی کوخیرباد کہہ دیا تھا - حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی، شیخ مجیب الرحمٰن اور دیگر افراد نے ملکر آل پاکستان عوامی مسلم لیگ قائم کی- فضل الحق جنہوں نے بنگالی زبان کی تحریک کا پورا وقت ساتھ دیا تھا، 1953 میں سرامک کرشک پارٹی (جس کے لغوی معنی ہیں مزدور-کسان پارٹی) قائم کی-
دونوں پارٹیوں نے ساتھ ملکر مسلم لیگ کے خلاف 1954 کے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا اور فضل الحق کو محاذ کی سربراہی سونپ دی- جگتو فرنٹ نے 19 نکاتی پروگرام پیش کیا اور بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دینے کا وعدہ کیا، اس آئینی مسودہ کو مسترد کر دیا گیا جس میں بنگالیون کو ان کی آبادی کے تناسب سے پارلیمنٹ میں نشستیں دینے سے انکار کیا گیا تھا- دستور ساز اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور اس کی جگہ ایک نئی اسمبلی براہ راست منتخب کی گئی اور اسے ملک کا دستور بنانے کے اختیارات سونپ دئے گئے-
مسلم لیگ شوریدہ سری کے ساتھ کسی جادوئی چھڑی کی تلاش میں تھی- اس نے فاطمہ جناح کو ایک طوفانی انتخابی مہم پر بھیجا- بنگالی پہلے ہی چوٹ کھا چکے تھے- وہ کوئی کرشمہ نہ دکھا سکیں- 309 اراکین کے ایوان میں مسلمانوں کی 237 نشستیں تھیں، جن میں سے مسلم لیگ صرف دس نشستیں جیت سکی، تین نشستیں آزاد امیدواروں نے، ایک نشست خلافت ربانی نے اور یونایٹڈ فرنٹ نے 223 نشستیں جیتیں؛ اس سےزیادہ بڑا فیصلہ اور کیا ہو سکتا تھا.
کراچی کی مرکزی حکومت نے آئین ساز اسمبلی کی جگہ براہ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی اسمبلی کو دینے سے انکار کر دیا جس کا مطالبہ یونایٹڈ فرنٹ نے کیا تھا اور ایک ایسے آئین کو بنانے اور منظور کرنے میں مصروف رہی جو کسی لحاظ سے بھی بنگالیوں کے لئے قابل قبول نہ تھا- پاکستان کی نام نہاد حکومت جانتی تھی کہ بنگالی اپنے مطالبے سے سر مو نہ ہٹیں گے، اس نے سولہ سال تک انتخابات منعقد نہ ہونے دئے اور جب بالاخر 1970 میں انتخابات منعقد ہوئے تو عوامی لیگ نے تین سو کے ایوان میں مشرقی بنگال کی 162 نشستوں میں سے 160 نشستوں پر کامیابی حاصل کی- فیصلہ با لکل واضح اور واشگاف تھا اور اسکے باوجود ایک بار پھر بنگالیوں نے دیکھا کہ وفاقی دار الحکومت میں ان کی بات سننے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے- انہوں نے شائد محسوس کرلیا تھا کہ وہ سوتے کو تو جگا سکتے ہیں لیکن اگر کوئی سونے کا بہانہ کر رہا ہو تو اسے جگایا نہیں جا سکتا.
طاہر مہدی پنجاب لوک سجاگ نامی ریسرچ گروپ سے وابستہ ہیں۔
ترجمہ: سیدہ صالحہ