ایران ایٹمی مذاکرات پر فرانس کی تنقید، اسرائیل کے خدشات
دبئی/ جنیوا: ایرانی صدر حسن روحانی ، جو مغرب پر سفارتکاری کے در کھولنے والے اہم ایرانی شخصیت سمجھے جاتے ہیں نے کہا ہے کہ ایران نیوکلیئر معاملے پر کسی دھمکی اور خوف کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے گا۔
وہ ایرانی پارلیمنٹ سے خطاب کررہے تھے جو اب بھی قدامت پرستوں کا ایک مضبوط گڑھ ہے۔ اس سے ایک روز قبل ایران اور دیگر چھ عالمی طاقتوں نے ایرانی ایٹمی پروگرام پر موجود اختلافات کم کرنے کی کوشش کی ہے اور بیس نومبر کو دوبارہ یہ مذاکرات شروع ہوں گے۔ تاکہ نہ صرف ایک عشرے سے جاری ایرانی ایٹمی تنازعے کو حل کیا جاسکے بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں چھڑنے والی ممکنہ جنگ کے خطرے کو بھی ٹالا جاسکے۔
دونوں فریقین یعنی ایران اور عالمی طاقتیں ایک معاہدے کے قریب پہنچ چکے تھے جبکہ فرانس نے مسودہ یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اس سے ایرانی نیوکلیائی بم کے خطرے کو ٹالا نہیں جاسکتا۔
فرانسیسی وزیرِ خارجہ لارینٹ فیبیئس نے فرانس کے انٹر ریڈیو کو بتایا کہ پیرس ایران سے نیوکلیائی تنازعے کا حل چاہتا ناکہ ' بے وقوف بنانے کا کوئی گیم' یا دیگر الفاظ میں کوئی کمزور معاہدہ نہیں چاہتا۔
سفارتکاروں کے مطابق اس میں رکاوٹ کا بڑا پتھر ایران میں بھاری پانی کا سیٹ اپ ہے جو آراک میں واقع ہے اور خدشہ ہے کہ وہاں ممکنہ طور پر بم بنانے کیلئے پلوٹونیم تیارکیا جاسکتا ہے۔
اسرائیل ایرانی ایٹمی پروگرام کو ہلاکت خیز خطرہ قرار دیتا ہے۔ وہ جینیوا میں اس بات کا مخالف ہے کہ ایران کے ایٹمی ایندھن کی سہولیات کو ختم کرنے کی بجائے اسے جوں کا توں نہ چھوڑا جائے۔
اسرائیل وزیرِ اعظم بنجمن نتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل اس معاہدے سے ماؤرا دیکھنے سے بھی گریز نہیں کرے گا جسے سفارتکاروں کی جانب سے خفیہ دھمکی بھی قرار دیا جارہا ہے۔
' ہم کسی بھی دھمکی، پابندی، امتیاز اور ہتک کا جواب نہیں دیں گے۔' لیکن انہوں نے خطرات کی وضاحت نہیں کی۔ لیکن بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا اشارہ اسرائیل کی جانب ہے۔
ایرانی صدر نے کہا ہے کہ ایران کسی بھی اتھارٹی کے سامنے نہیں جھکے گا۔
' ہمارے لئے سرخ لکیریں بھی ہیں جنہیں عبور نہیں کرنا چاہئے۔ قومی مفادات ہماری سرخ لکیریں ہیں اور بین الاقوامی قوانین کے تحت یورینیم کی انرچمنٹ ہمارا حق ہے۔'
واضح رہے کہ حسن روحانی قدرے اعتدال پسند رہنما تصور کئے جاتے ہیں جبکہ ایران دس سال سے اپنے ایٹمی معاملات پر بے لچک اور سخت رویہ رکھتا ہے۔ روحانی چاہتے ہیں کہ ایٹمی پروگرام پر مغرب سے مذاکرات کی کھڑکی کھلی رہے تاکہ تیل کی پیداوار دینے والے اس اہم ملک پر لگی پابندیوں میں کمی کرکے معیشت کو سہارا دیا جائے۔
واضح رہے کہ ایران دوہزار چھ کے بعد سے بہت تیزی سے اپنے نیوکلیائی پروگرام کو ترقی دے رہا ہے۔ مغرب کو خدشہ ہے کہ یہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوشش ہے تاہم ایران اس کی تردید کرتا ہے۔