ایٹمی پروگرام میں سعودی فنڈنگ کی پاکستانی تردید
اسلام آباد: پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں سرمایہ کاری کی ہے جبکہ ان خبروں کو ' بے بنیاد، غلط اور اشتعال انگیز' قرار دیا ہے۔
اس سے قبل بی بی سی نیوزنائٹ پروگرام میں مختلف ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ سعودی عرب جب چاہے پاکستان سے ایٹم بم حاصل کرسکتا ہے۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے، دفترِ خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان ایک ذمے دار جوہری قوت ہے جس کا ایٹمی ہتھیاروں پر مکمل اور مؤثر کنٹرول ہے جبکہ نیوکلیئر سیکیورٹی کے غیرمعمولی اقدامات کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کا ایٹمی پروگرام بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہے اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ( آئی اے ای اے) کے بین الاقوامی تقاضوں کے لحاظ سے ہے۔
پاکستان شروع سے ہی اس کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں مغربی ممالک کی تشویش کو رد کرتا آرہا ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
بی بی سی نیوزنائٹ کے ڈپلومیٹک اور ڈیفنس ایڈیٹر مارک اربن نے اس سال کے اوائل میں ایک گمنام نیٹو آفیشل سے چیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ آفیشل نے چند ایسی رپورٹس دیکھی ہیں جس کے تحت پاکستان سعودی عرب کو اپنے ایٹمی ہتھیار دینے کیلئے تیار ہے۔
اس رپورٹ میں اسرائیل کے سابق ملٹری انٹیلی جنس چیف آموس یالدن کی پریس کانفرنس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ یادلن کا کہنا تھا کہ اگر ایران ایٹم بم بنالیتا ہے تو سعودی عرب کو اسے پاکستان سے حاصل کرنے میں ایک ماہ سے بھی کم کا عرصہ لگے گا۔ اور یہ بھی کہ پاکستان کو پہلے ہی اس کی قیمت ادا کی جاچکی ہے۔
تاہم امریکی صدر براک اوبامہ کے سابق مشیر گیری سیمور نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اس قسم کی مفاہمت موجود نہیں۔
ریاض پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں دلچسپی رکھتا ہے جبکہ 1999 میں سعودی عرب کے اس وقت کے وزیرِ دفاع کو نواز شریف نے کہوٹہ پلانٹ میں خوش آمدید کہا تھا۔ دوسری جانب امریکہ کو سعودی عرب کی جانب سے لانگ رینج چینی میزائل CSS-2 کے حصول پر تشویش ہے جسے ممکنہ طور پر ایٹمی وارہیڈز لے جانے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔