سندھ: ہندو کی لاش کو قبر سے نکال کر سڑک پر پھینک دیا گیا
صوبہ سندھ جو پہلے ہی تیزی کے ساتھ عدم استحکام کی جانب بڑھتا جارہا ہے، وہاں مذہبی فرقہ واریت پر مبنی کشیدگی میں اضافے کی ایک تازہ ترین علامت اس وقت سامنے آئی جب پولیس نے منگل کو اس بات کی تصدیق کی کہ مسلمان شدت پسندوں کے ایک ہجوم نے ایک ہندو کی لاش کو قبر سے نکال کر پھینک دیا۔
کراچی سے مشرق کی جانب لگ بھگ 225 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مسلم آبادی کے قصبے پنگریو میں ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کی لاش کو مسلمانوں کے مرکزی قبرستان میں دفن کرنے پر یہ ہجوم احتجاج کررہا تھا۔
رائٹرز کے نمائندے کے مطابق جنون میں مبتلا ہجوم میں شامل افراد نے ”اللہ اکبر“ کے نعرے بلند کرتے ہوئے قبر کو کھود کر لاش نکالی اور اُسے سڑک پر پھینک دیا۔
ہندو برادری کا اس شخص کا نام بھورو بھیل تھا۔ تیس برس کا بھورو سڑک کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگیا تھا اور ہفتے کے روز مذہبی رسومات کے ساتھ اس کی تدفین کردی گئی تھی۔
ہندو برادری کے ایک رکن نارائن داس بھیل نے رائٹرز کو بتایا کہ ”اب ہمارے لوگوں کی لاشیں بھی اپنی قبروں میں محفوظ نہیں رہی ہیں۔“
مقامی پولیس کے آفیسر اسلم خانزادہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ مسلم برادری کے افراد نے اتوار کے روز قبر کو کھود کر لاش باہر نکالی اوراُسے قصبے کی انتظامیہ کے حوالے کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھورو بھیل کی لاش کی اب دوبارہ دوسری جگہ تدفین کردی گئی ہے۔
رائٹرز کے مطابق پولیس چیف شوکت علی کھتیان کا کہنا ہے کہ ”کشیدگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے، لیکن ہم نے صورتحال پر قابو پالیا ہے۔“
انہوں نے مزید بتایا کہ شدت پسند تنظیم اہلِ سنت والجماعت کے کچھ مذہبی عالموں کی نےاس حوالے سے لوگوں میں اشتعال پیدا کیا تھا چنانچہ بعد میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اکھٹا ہوکر قبر کھود کر لاش نکالی اور اس کو سڑک پر پھینک دیا۔
یاد رہے کہ ہندو اور مسلمان صدیوں سے سندھ میں ایک ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں، اور یہاں کے ہندو اپنے انتقال کرجانے والے عزیزوں کی لاشوں کو جلانے کے بجائے مسلمانوں کی طرح تدفین کرتے ہیں، اور صدیوں سے وہ مسلمانوں کے قبرستان میں اپنے مُردوں کو دفناتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں شدت پسندوں کی سرگرمیاں بہت تیزی سے بڑھتی جارہی ہیں۔
لگ بھگ دولاکھ افراد کے ساتھ ہندو برادری کی تعداد پاکستانی آبادی کا محض دو فیصد بنتی ہے، ان میں سے زیادہ تر صوبہ سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی میں آباد ہیں۔ لیکن دونوں مذہبی گروہوں کے درمیان کشیدگی کے واقعات بہت کم سننے میں آئے ہیں۔
مولوی مٹھن نامی ایک مسجد کے پیش امام نے اے ایف پی کو بتایا کہ مسلمانوں کے شدید احتجاج کی وجہ سےپورا شہر بند ہوگیا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق بھورو بھیل جس کی لاش کی بے حرمتی کی گئی، کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ پولیس نے مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا۔ بھورو بھیل کے ایک کزن نرسنگھ بھیل نے کہا کہ میرے کزن کی لاش کو قبر سے نکال کر نہایت بے دردی کے ساتھ سڑک پر پھینک دیا گیا، جہاں وہ سارا دن شدید گرمی میں پڑی رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہندو لوگ اس قبرستان کے ایک حصے میں اپنے مرنے والوں کی تدفین کئی دہائیوں سے کرتے آئے ہیں، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا ”اس قبرستان میں ہمارے آباؤاجداد کی سو سے زیادہ قبریں موجود ہیں۔“
تبصرے (6) بند ہیں