• KHI: Maghrib 6:51pm Isha 8:08pm
  • LHR: Maghrib 6:26pm Isha 7:49pm
  • ISB: Maghrib 6:33pm Isha 7:59pm
  • KHI: Maghrib 6:51pm Isha 8:08pm
  • LHR: Maghrib 6:26pm Isha 7:49pm
  • ISB: Maghrib 6:33pm Isha 7:59pm

’غزہ پر وحشیانہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 39 ہزار سے زائد بچے یتیم ہوچکے‘

شائع April 3, 2025
— فوٹو: انادولو ایجنسی
— فوٹو: انادولو ایجنسی

غزہ پر وحشیانہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 39 ہزار سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کو جدید تاریخ کے ’سب سے بڑے یتیم بچوں کے بحران‘ کا سامنا ہے، فلسطینی اعداد و شمار کی ایجنسی کی نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں 39 ہزار سے زیادہ بچوں نے اپنے والدین میں سے ایک یا دونوں کو کھو دیا ہے۔

فلسطینی سینٹرل بیورو آف اسٹیٹسٹکس کا کہنا ہے کہ محصور غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک ہزاروں فلسطینی بچوں کے والدین شہید ہو چکے ہیں۔

’فلسطینی یوم اطفال‘ کے موقع پر ایک بیان میں ایجنسی نے کہا کہ جنگ کے 534 دنوں کے دوران اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں 39 ہزار 384 بچوں نے اپنے والدین میں سے ایک یا دونوں کو کھو دیا ہے۔

اسرائیلی بمباری سے محصور غزہ تباہ ہوگیا ہے اور اس کی 23 لاکھ کی آبادی میں سے زیادہ تر بے گھر ہوچکی ہے۔

بیورو نے کہا کہ ان میں تقریباً 17 ہزار بچے شامل ہیں جو اکتوبر 2023 سے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد سے اپنے دونوں والدین سے محروم ہو گئے ہیں۔

فلسطینی سینٹرل بیورو آف اسٹیٹسٹکس بیورو کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بچے المناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، جن میں سے بہت سے شکستہ خیموں یا تباہ شدہ گھروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، جہاں انہیں سماجی نگہداشت اور کوئی نفسیاتی مدد حاصل نہیں ہے، غزہ کی پٹی کو جدید تاریخ کے سب سے بڑے یتیم بچوں کے بحران کا سامنا ہے۔

بیورو کے بیان کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم 17 ہزار 954 بچے شہید ہوئے ہیں، جن میں 274 نومولود بچے اور ایک سال سے کم عمر کے 876 بچے شامل تھے۔

بیورو کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بے گھر افراد کو پناہ دینے والے خیموں میں 17 بچے یخ بستہ سردی ٹھٹھر کر شہید ہوئےجبکہ دیگر 52 بچے بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے جان سے چلے گئے۔

فلسطینی ایجنسی نے بیورو نے خبردار کیا کہ 60 ہزار بچے شدید غذائی قلت اور آنے والے قحط کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

واضح رہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ پر دوبارہ حملے شروع کرنے کے بعد سے اسرائیل نے اہم سرحدی گزرگاہوں کو بند کر دیا ہے اور غزہ کی پٹی میں انتہائی ضروری انسانی امداد، بشمول آٹا، ایندھن اور طبی سامان کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔

جنوری میں آخری جنگ بندی نافذ ہونے سے پہلے بھی، جو تقریباً دو ماہ تک جاری رہی، اسرائیلی افواج نے سرحدی گزرگاہوں کو بڑی حد تک بند رکھا اور امدادی سامان لے جانے والے ہزاروں قافلوں کو واپس بھیج دیا۔

غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اس ہفتے کے اوائل میں کہا کہ اسرائیلی حکومت ایک مہینے کے لیے امداد اور آٹے کی آمد کو روک کر ’ منظم بھوک“ ’ کی پالیسی نافذ کر رہی ہے، جس سے بیکریوں کو بند ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

بیورو نے بتایا کہ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں 55 لاکھ کی مشترکہ فلسطینی آبادی کا تقریباً 43 فیصد بچے اور نابالغ، یعنی 18 سال سے کم عمر کے افراد ہیں۔

18 مارچ کو اسرائیلی فون نے غزہ پر دوبارہ سے حملے شروع کردیے جن میں اب تک 1160 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 50 ہزار 523 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی افواج نے 1055 سے زیادہ بچوں کو حراست میں لیا ہے، جن میں سے 350 سے زیادہ اب بھی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 7 اپریل 2025
کارٹون : 6 اپریل 2025