کوئٹہ: بی وائی سی نے لاشیں لینے کیلئے ہسپتال میں مارپیٹ، دوران احتجاج توڑ پھوڑ کی، ڈی آئی جی
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اعزاز احمد گورائیہ نے کہا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) نے لاشیں لینے کے لیے ہسپتال میں مارپیٹ کی جبکہ کیمرے تباہ، 18 سے زائد پولز کو توڑا اور کئی سو کلو میٹر آپٹکس فائبر کو جلایا گیا۔
ڈپٹی کمشنر کے ساتھ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جوابی کارروائی کی گئی، اس وقت مینٹیننس آف پبلک آرڈر کے تحت 61 افراد جیل میں بند ہیں، اسی طرح 13 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن کے نام ایف آئی آرز میں ہیں، جبکہ ضمانت پر 35 افراد کو رہا کیا گیا۔
مزید کہا کہ 11 مارچ کو ہمیں پتا چلتا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا، جسے ایس ایس جی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسے 12 مارچ کو کلیئر کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس میں 5 فدائین جس کو کالعدم بی ایل اے نے بعد میں قبول بھی کیا، وہ لوگ جو ریل کے اندر موجود تھے، جنہوں نے لوگوں کو یرغمال بنایا ہوا تھا، جو اس آپریشن میں ہلاک ہوئے، جس کی تفصیلات آئی ایس پی آر نے جاری کر دی تھیں، قانون کے مطابق اور حکومت بلوچستان نے ہیومن رائٹس اور ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان 5 کی لاشوں کو ہسپتال لایا جائے اور ان کی شناخت کی جائے۔
اعزاز احمد گورائیہ کا مزید کہنا تھا کہ ان پانچ لاشوں کو سول ہسپتال لایا گیا، ان کا ڈی این اے کروایا گیا، اور نادرا سے بھی تصدیق کروائی گی کہ یہ لوگ کون ہیں، قانونی طور پر لاش کو لینے کا حق اس کے ورثا کا ہے، ورثا کا مطلب ان کی والد، والدہ، بہن، بھائی، بیوی، شوہر، بیٹا یا بیٹی شناخت کرکے عدالت سے اجازت لے کر لاش وصول کرسکتے ہیں۔
ڈی آئی جی نے کہا کہ 14 مارچ کو 5 لاشیں سول ہسپتال لائی گئیں، 19 مارچ کو صدر مملکت آصف علی زرداری کوئٹہ تشریف لائے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اس طرف مصروف ہوتے ہیں، اس دوران کچھ لوگ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے پلیٹ فارم سے لیڈرشپ سمیت ہسپتال پہنچتے ہیں کہ لاشیں ہمیں دی جائیں، انہیں ہدایت کی گئی کہ آپ ان کے ورثا کو لے آئیں، وہ آ کر لاشیں لے جائیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بی ایل اے نے کہا کہ ہم ہی وراث ہیں، ڈی آئی جی نے کہا کہ بی ایل اے کا وارث کون ہوسکتا ہے؟ یہ میں آپ (صحافیوں) پر چھوڑتا ہوں، تنظیمی بنیاد پر لے کر گئے تو پھر وہ کس کی لاشیں تھیں؟ دہشتگرد جس کو بعد میں خود بی ایل اے نے بھی تسلیم کیا۔
اعزاز احمد گورائیہ نے کہا کہ ہسپتال کا سردخانے کو توڑا گیا اور توڑ پھوڑ کرکے وہاں سے لاشیں اٹھائیں گئیں، ایک طرف تو کہتے ہیں کہ ہم ہیومن رائٹس کی باتیں کرتے ہیں، دوسری طرف دہشتگردوں کی لاشوں کو لے کر جاتے ہیں کہ یہ ہمارے لوگ ہیں، راستے میں انہیں روک کر واپس لاشیں گئیں، جس کے بعد کوئٹہ میں امن و امان صورتحال خراب کی گئی، دھرنے اور جلسے کا اعلان کیا گیا ۔
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ پُرامن احتجاج کا اعلان کیا گیا لیکن 36 سے زیادہ کیمرے تباہ ہوئے، 18 سے زائد پولز کو توڑا گیا، جن کی سی سی ٹی وی فوٹیجز موجود ہیں، کئی سو کلو میٹر آپٹکس فائبر کو جلا دیا گیا، یونیورسٹی کا گیٹ توڑا گیا، اسی طرح پوسٹ آفس کو جلا دیا گیا۔
اعزاز احمد گورائیہ نے مزید کہا کہ اسی طرح بینک کا دروازہ توڑ کر لوگ داخل ہوئے ، اس کے بعد وہاں سے کیش لوٹنے کی کوشش کی گئی، اس کے بعد پولیس اور حکومت کی طرف سے فیصلہ ہوا کہ قانونی حدود میں رہتے ہوئے آنسوگیس اور لاٹھی چارج استعمال کریں، 6 بجے کے قریب پولیس پیچھے ہٹ جاتی ہے، اس وقت تک کچھ نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اچانک ساڑھے 7 بجے پتا چلتا ہے کہ 3لاشیں ہسپتال منتقل کی گئیں، جو مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے مرے، اُس وقت وزیراعلیٰ اور آئی جی نے اعلان کیا کہ ان کا پوسٹ مارٹم کرایا جائے کہ کس قسم کی گولی لگی ہے، کونسی گولی ہے، اور جب سب منتشر ہوگئے تو پھر 7 بجے کے بعد یہ لاشیں کس طرح آگئیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ پھر ان لاشوں کو رکھ کر دھرنا شروع کر دیا گیا، پھر ایک اور تابوت بھی رکھ دیا گیا، یہ دونوں بچے ہوٹل پر کام کرتے تھے، انہوں نے حکومت سے رابطہ کیا کہ یہ لاشیں ہمیں دی جائیں، ہم ان کی تدفین کرنا چاہتے ہیں، اور ان کے اہل خانہ نے بی وائی سی کے ساتھ اظہار تعلقی کیا۔
ڈی آئی جی نے سوال اٹھایا کہ اگر پولیس نے فائرنگ کی تو جہاں 2 ہزار بندہ پھر رہا تھا وہاں کسی کو اور نہیں راہ چلنے والے کو گولی لگنی تھی؟ جب فیملی اے سی اور ڈویژنل ایس پی کو لے کر گئے کہ ہمیں وہ لاشیں اٹھانے کی دی جائیں، انہوں (بی وائی سی) نے کہا کہ ہم یہ نہیں لے کر جانے دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاشیں وہاں سے اٹھا کر فیملی کے حوالے کی گئیں، میڈیکل ریکوائرمنٹ پوری کی گئیں، اہل خانہ کی درخواست پر پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا، تاہم معائنہ کیا گیا۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعزاز احمد گورائیہ نے بتایا کہ اس کے بعد مینٹننس آف پبلک آرڈر کے تحت قانونی کارروائی کی گئی اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا، کوئی بھی ایسا بندہ نہیں ہے جس کو لاپتا کیا گیا ہو، جن کے نام ایف آئی آرز میں تھے، ان کا ریمانڈ لیا گیا، جو ایم پی او کے تحت لوگوں کو جیل بھیجا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے گرفتار لوگوں کو ان کے والدین کی درخواست پر چھوڑا گیا، جنہوں نے آ کر کہا تھا کہ ہمارا بچہ تو اسکول گیا تھا، وہاں سے اسے اسکول کے ٹیچر دھرنے میں لے کر گئے، جس کا فیملی کو نہیں پتا۔
ڈی آئی جی نے کہا کہ احتجاج کا حق تو سب کے پاس ہے لیکن کسی کو سرکاری اور نجی پراپرٹی تباہ کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے، گزشتہ برس اگست میں ضلعی انتظامیہ اور بی وائی سی کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ جب بھی احتجاج کرنا ہوگا، تو آپ ضلعی انتظامیہ کو بتائیں گے اور انتظامیہ ایک جگہ بتائے گی، وہاں پر آپ احتجاج کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر کے تحت 61 افراد جیل میں بند ہیں، اسی طرح 13 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن کے نام ایف آئی آرز میں ہیں، جبکہ ضمانت پر 35 افراد کو رہا کیا گیا۔