سیاسی وعسکری قیادت کا دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ہر آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ
قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اعلامیہ جاری کردیا گیا جس میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی مذمت کی گئی اور انسداد دہشتگری کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا گیا جب کہ سیاسی وعسکری قیادت دہشت گردی کو تمام شکلوں میں ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے اور ہر آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
ڈان نیوز کے مطابق قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ختم ہوگیا جس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔
اعلامیہ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس آج اسلام آباد میں منعقد ہوا، کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی شدید مذمت کی اور متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ کمیٹی نے ریاست کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے متفقہ سیاسی عزم پر زور دیا اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا جب کہ انسداد دہشت گردی کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا۔
قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی میں سیاسی وعسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام وسائل اور ہر آپشن استعمال کرنے اور خوراج کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔
اعلامیہ کے مطابق اجلاس کے دوران کمیٹی نے قومی سلامتی کی موجودہ صورتحال اور دہشت گردی کی حالیہ لہر پر تفصیلی غور کیا جب کہ حزب اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ کمیٹی نے کہا کہ ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی کے تحت قومی سلامتی کو یقینی بنایا جائے اور دہشتگردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ ممکن بنانے کے لیے مربوط اور منظم حکمت عملی بنانا ہوگی۔
کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کی حمایت کرنے والے کسی بھی گروہ کے خلاف موثر کارروائی کی جائے گی جب کہ انسداد دہشت گردی کے لیے جامع ایکشن پلان اور مستقل حکمت عملی پر مکمل عملدرآمد یقنی بنایا جائے گا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ کمیٹی نے پروپیگنڈا پھیلانے، بے بنیاد بیانیہ گھڑنے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوششوں کی مذمت کی جب کہ سوشل میڈیا پر دہشت گردی کے بیانیے کو فروغ دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی۔
کمیٹی نے دہشتگردوں کی جانب سے سوشل میڈیا کے استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردوں کی سوشل میڈیا استعمال کو روکنے کے لیے مربوط حکمت عملی کا مطالبہ کیا۔
قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی نے کہا کہ پاکستانی اداروں کو قانون نافذ کرنے اور قومی سلامتی کے معاملات میں مکمل آزادی ہونی چاہیے، کمیٹی نے زور دیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے چینلجز پر قابو پانے کے لیے قومی وضروری قوانین نافذ کرنے والے اداروں کی بھرپور حمایت پر زور دیا جب کہ افغانستان میں شدت پسند دہشت گرد تنظیم کے ساتھ ہر قسم کی ہمدری کے اظہار کی مذمت کی۔
مزید کہا گیا کہ قوم دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے جب کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو کمزوری نہیں دکھانی چاہیے۔
آخر میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی درخواست پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے دعا کرائی۔
سیاسی وعسکری قیادت کی شرکت
ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردوں کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کے لیے قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کا بند کمرہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں جاری ہے، اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف بھی شریک ہیں۔
اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی بھی شریک ہیں جب کہ گورنر بلوچستان، گورنر خیبر پختونخوا، گورنر پنجاب اور چاروں صوبوں کے آئی جیز نے بھی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔
بلاول بھٹو کی سربراہی میں پیپلزپارٹی کے 16 اراکین پارلیمنٹ اور خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں ایم کیو ایم کے 4 اراکین پارلیمنٹ نے اجلاس میں شرکت کی۔
مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں جے یو آئی (ف) کا وفد اجلاس میں موجود ہے، سربراہ بی این پی مینگل سردار اختر مینگل کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن وہ نہیں آئے۔
وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، اور دیگر وفاقی وزرا، اور وزیراعظم آزاد کشمیر انوار الحق بھی قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہیں۔
آرمی چیف کی 50 منٹ طویل بریفنگ
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے قومی سلامتی کمیٹی کو ملکی صورتحال پر 50 منٹ تک تفصیلی بریفنگ دی، آرمی چیف نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی کی صورتحال سے آگاہ کیا، آرمی چیف کی بریفنگ کے بعد 15 منٹ کے لیے نماز کا وقفہ کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ڈی جی آئی بی کی بریفنگ کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور دیگرپارلیمانی رہنما اظہار خیال کریں گے، جس کے بعد سوال و جواب کا بھی سیشن ہوگا جہاں عسکری قیادت اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان سوالات کے جوابات دیں گے۔
دریں اثنا، قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔
قبل ازیں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اجلاس کے آغاز پر پارلیمانی کمیٹی کے شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ آج کا اجلاس ملکی مجموعی سیکیورٹی صورتحال پر غور کے لیے ہے، اجلاس کے شرکا سلامتی صورتحال سے متعلق اپنی تجاویز بھی دیں۔
اسپیکر نے بتایا کہ اجلاس میں پہلے عسکری قیادت کی طرف سے بریفنگ دی جائے گی، بریفنگ کے بعد پارلیمنٹیرینز کے سوالات کے جواب بھی دیئے جائیں گے۔
ایاز صادق نے کہا کہ افسوس ہے کہ اپوزیشن نے آج کے اجلاس میں شرکت نہیں کی، ہم نے ان کو بھی دعوت دی تھی، اچھا ہوتا وہ بھی شریک ہوتے، انہوں نے کہا کہ ہمیں مل کر ملک کو مسائل سے نکالنا ہے۔
اہم اجلاس میں عدم شرکت اپوزیشن کا غیر سنجیدہ طرز عمل ہے، وزیراعظم
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی ملک کے لیے ناسور بن گئی ہے، ہم یہاں دہشت گردی کے مسئلے کا حل نکالیں گے، ہم آخری دہشت گرد کی موجودگی تک ان کا پیچھا کرکے قلع قمع کریں گے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کریں گے، شہدا کی قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکتے، انہوں نے ملک کے لیے جانیں قربان کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے قومی نوعیت کے اہم اجلاس میں حزب اختلاف کی عدم شرکت کو افسوسناک اور غیر سنجیدہ طرز عمل قرار دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ حزب اختلاف کی اجلاس میں عدم شرکت قومی ذمہ داریوں سے منہ موڑنے کے مترادف ہے جو قوم کی مقدس امانت ہیں، دہشت گردی کے خلاف سب کو متحدہ ہو کر آگے بڑھنا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجی جوانوں کے اہل خانہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، وزیراعظم نے بے نظیر بھٹو، بلور خاندان اور مفتی نعیمی سمیت سیکڑوں اہم شخصیات کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لازوال قربانیوں کا ذکر کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ دسمبر 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد میرے قائد میاں محمد نواز شریف نے پوری قوم کو متحد کیا اور پوری قوم نے مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
وزیراعظم نے کہاکہ افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیکیورٹی ایجنسیز، سیاستدان، پاکستانی شہریوں نے لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی جبکہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دھشتگردی کی جنگ میں پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، قربانیوں کی بدولت پاکستان کا امن بحال ہوا، معیشت سنھبلی اور ملک کی رونقیں بحال ہوئیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ 2018 میں قائم ہونے والی نا اہل حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے حاصل ہونے والے ثمرات کو ضائع کر دیا اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد روک دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ فوج اور عوام ایک ہیں، ان کے مابین دراڑ ڈالنے کی سازش پہلے کامیاب ہوئی نہ آئندہ ہوگی، ایسے شر پسند عناصر کی مزموم کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان کا حصول ہمارے اسلاف کی لاکھوں قربانیوں کے بعد ممکن ہوا، ہم ان کی قربانیوں کو کبھی رائیگان نہیں جانے دیں گے۔
عمران خان کو پے رول پر رہا کیا جائے، سلمان اکرم راجا

دریں اثنا، پاکستان تحریک انصاف نے قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔
تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہم نے اس اجلاس میں شریک ہونے سے انکار کردیا ہے، یہ فیصلہ ہم نے گزشتہ روز سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کا کوئی نمائندہ اجلاس میں نہیں جائے گا تاہم علی امین گنڈاپور بطور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اس اجلاس میں شریک ہوں گے۔
سلمان اکرم راجا نے واضح کیا کہ ہم اس وقت کسی بھی آپریشن کے حق میں نہیں ہیں، 77 سالوں سے ان حالات کا شکار ہیں اور ان حالات کے حق میں نہیں ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ عمران خان کو پے رول پر رہا کیا جائے، ہم نے اس ملک کو ٹھیک کرنا ہے اور فسطائیت کا خاتمہ کرنا ہے۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف نے گزشتہ روز قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا اور اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی کو شرکت کرنے والے اپنے ارکان کی فہرست بھجوا دی تھی۔
تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان، زرتاج گل، اسد قیصر، علی محمد خان، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز، سینیٹر ہمایوں مہمند اور سینیٹر علی ظفر نے اجلاس میں شرکت کرنا تھی۔
اس کے علاوہ فہرست میں حامد رضا، عون عباس، زبیرخان، ثنااللہ مستی خیل، بشیر خان اور عامر ڈوگر کے نام بھی شامل تھے۔