مظلوم کون؟
کراچی میں تشدد کا جائزہ لیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کے سابقہ مشیر قیصر بنگالی نے اس اخبار کی 8 ستمبر کی اشاعت میں لکھا ہے کہ اس کی وجہ اس شہر میں سماجی معاہدوں (Social Contract) کی ٹوٹ پھوٹ ہے-
اس معاہدے کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایک ایسا قطعی معاہدہ ہے جو تمام گروہوں کے درمیان، جنکے مفادات مشترک ہوتے ہیں، حکمرانی کے وسیع تر خدوخال کے تعلق سے لازمی طور پر موجود ہوتا ہے- وہ کہتے ہیں کہ اسی بنیاد پر معاشرے اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں-
قیصر بنگالی کا کہنا بالکل درست ہے- ان کے خیال میں آبادی کے خدوخال میں ہونے والی تبدیلیاں، لیاری کے نوجوانوں میں پائی جانے والی بیروزگاری اور مذہبی عسکریت پسندی اس جنگ کے اہم محاذ ہیں جو سماجی معاہدے کے ٹوٹنے کےنتیجے میں ہورہی ہے-
اس کی وجوہات میں ایک اور بھی اہم عنصر ہے جسے ہم نظرانداز نہیں کر سکتے- یہ عنصر"امیر اور غریب کی تقسیم" ہے جو کراچی کی زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کررہا ہے - اسی دن 8 ستمبر کو اخبار کے ایڈیٹر کے نام اپنے ایک خط میں ایم ایم اے حسین نے اس بات کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے-
انہوں نے مختصر مگر جامع الفاظ میں بتایا ہے کہ کس طرح دولتمند لوگ بلٹ پروف گاڑیوں، مسلح گارڈز اور محفوظ مکانوں میں بند ہوکر اپنا تحفظ خرید تے ہیں اور چاردیواری سے گھرے ہوئےمکانوں میں رہنے لگتے ہیں --- اس قسم کی مثالیں ہمیں آج بھی نظر آتی ہیں-
مسٹر حسین نے جو مشاہدہ پیش کیا ہے دراصل یہی اس معاہدے کے ٹوٹنے کی اصل وجہ ہے جس کے بارے میں قیصر بنگالی نے لکھا ہے- حقیقت یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں طبقاتی تقسیم بہت زیادہ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غریبوں اور دولتمندوں کےدرمیان خلیج مسلسل بڑھتی جارہی ہے- اس معاہدے کے کسی بھی فریق نے اس خلیج کو پاٹنے میں نیک نیتی نہیں دکھائی-
امیر غریب کی تقسیم کراچی میں پائے جانے والے تمام گروہوں میں نظر آتی ہے- خواہ ان کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے، نسلی جماعتوں یا مذہبی جماعتوں سے ہو ان میں سے ہر ایک گروپ میں ایسے دولتمند افراد موجود ہیں جو ان کی قیادت کرتے ہیں اورانہیں فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے جبکہ دوسری طرف غریب ہیں جو محروم ہیں اور جنہیں کسی قسم کی مراعات حاصل نہیں- ان میں سے کسی بھی جماعت نے اپنے اپنے حلقوں کے غریب عوام کی حالت کو بہتر بنانے کےلئے کچھ بھی نہیں کیا-
وہ اپنے حلقوں کے غریب عوام کی تعدادی قوت کو استعمال کرکے اپنے ہاتھ مضبوط کرتے اور اپنے مخالفین کے ساتھ سودے بازی کرتے ہیں- چونکہ غیرمراعات یافتہ طبقے میں نہ تو اتنی استعداد ہوتی ہے اور نہ ہی اتنی طاقت کہ وہ زندہ رہنے کے حقوق، روزگار اور تحفظ حاصل کرسکیں اس لئے وہ اپنے تحفظ کے لئے اپنی کمیونٹی کے مراعات یافتہ طبقوں کی طرف دیکھتے ہیں-
اس کے نتیجے میں معاشرے میں مزید ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے اور وہ گروپ مضبوط ہوتے جاتے ہیں جو ایک ساتھ جڑے ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں-
چونکہ مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والے دولتمند افراد اپنی ضرورت کی ہر شے پرائیویٹ سیکٹر سے خرید سکتے ہیں اس لئے انہیں اس سماجی معاہدے کی ضرورت نہیں ہے جسکی جانب قیصر بنگالی نے اشارہ کیا ہے- اس کے علاوہ وہ دیگر گروہوں اور پارٹیوں کے ان افراد کے ساتھ جو ان کے سماجی مرتبے کے برابر ہوں دوستانہ تعلقات پیدا کرلیتے ہیں-
اپنے گروپ کے دولتمند افراد کی نقالی کرتے ہوئےغیر مراعات یافتہ طبقہ بھی ویسی ہی روش اختیارکرتا ہے اور دولتمند اور طاقتور لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کا استحصال کرتا ہے جو ان سے کمتر درجے کے ہیں-
یہ سب کچھ کس طرح کیا جاتا ہے اسے کیتھرائن بو نے اپنی کتاب 'بی ہائنڈ دی بیوٹی فل فار ایور': لائف، ڈیتھ اینڈ ہوپ فار اے ممبئی انڈر سٹی میں بڑی خوبی سے بیان کیا ہے-
کراچی قبضے کی جنگ کے جال میں پھنسا ہوا ہے جسکا عام شکار غریب ہیں- لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ دولتمند ہلاک نہیں ہورہے ہیں- لیکن ان کی تعداد مقابلتاً بہت کم ہے-
کراچی کے مظلوم عوام کے ساتھ جو امتیازی سلوک برتا جارہا ہے اس میں پارٹی لائنوں کی کوئی قید نہیں ہے-
اس سلسلے میں میں تعلیم کے مسئلہ کا ذکر کرنا چاہونگی جسے عوام کی سیاسی، معاشی اور سماجی طاقت میں بنیادی عنصر کی اہمیت حاصل ہے- ہر جماعت کی قیادت خاص طور پر اس کوشش میں ہے کہ اچھی تعلیم عام آدمی تک نہ پہنچے- اس بات سے کون ناواقف ہے کہ صحیح تعلیم مساوات قائم کرنے کا اہم ذریعہ ہے؟
تعلیم سب کے سامنے لامحدود امکانات روشن کرتی ہے اور ملازمتوں کا حصول آسان بناتی ہے- اگر مستقبل کو سامنے رکھ کر تعلیم کی منصوبہ بندی کی جائے اور اسے سب تک پہنچایا جائےتو یہ ایک سماجی اثاثہ کو تشکیل دیتی ہے --- یعنی ایسے شہری پیدا کرتی ہے جو مل جل کر کام کرتے ہیں اور ایک مشترکہ کاز کیلئے تعاون کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں- بد قسمتی سے اس قسم کی تعلیم کسی بھی پارٹی یا گروہ سے تعلق رکھنے والےعام انسان کو حاصل نہیں ہے-
سرکاری شعبہ جو تعلیم فراہم کرنے والا سب سے بڑا شعبہ ہے --- گرچہ کہ کراچی میں اس کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے --- اپنے فرائض میں بری طرح ناکام رہا ہے- چونکہ فیصلہ سازوں کے بچے سرکاری اسکولوں میں نہیں پڑھتے ہیں اس لئے ان کی طرف سے نہ تو موثر پالیسی بنانے کی کوشش ہوتی ہے اور نہ ہی ان پر عمل درآمد کرنے کی- یہ امر انتہائی قابل افسوس ہے کیونکہ کراچی میں تمام جماعتیں اور گروپس کبھی نہ کبھی حکومت میں شامل رہے ہیں-
یہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ کاغذی ڈگریاں بہرحال اہمیت رکھتی ہیں، وہ امتحانات میں نامناسب طریقے استعمال کرتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس قسم کی حرکتوں سے انہوں نے نوجوان نسلوں کے کردار اور ان کی صلاحیتوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے-
اس تمام تر تشدد کے باوجود جس نے کراچی کو لہولہان کر دیا ہے اس شہر کی معاشی اور سماجی زندگی کو بحال کرنے کی قوت نے ملک کے صنعتی اور تجارتی مرکز کی حیثیت سے اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں اسکی مدد کی ہے- اور جیسا کہ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کا کہنا ہے یہ شہر ملک کی اڑسٹھ فیصد آمدنی پیدا کرتا ہے- اگر یہاں تشدد کی لہر طویل عرصے تک برقرار رہتی ہے تو پھر ناممکن ہے کہ یہ پر امید صورت حال باقی رہے-
سماجی معاہدہ کو بحال کرنا وقت کی ا ہم ضرورت ہے- لیکن اس کیلئے سماجی عدم مساوات کو کم کرنے کا عہد کرنا ہوگا اور اس بات کا بیڑہ اٹھانا ہوگا کہ بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے منصوبے بنائے جائیں- جب تک ایسا نہیں ہوگا کراچی میں فوجی آپریشن یا اسلحہ بندی کےذریعہ تشدد سے عارضی نجات ہی مل سکتی ہے- جس بات کی ہمیں ضرورت ہے وہ ہے اس مسئلہ کا ایک مستقل حل-
ترجمہ: سیدہ صالحہ
تبصرے (1) بند ہیں