• KHI: Asr 4:28pm Maghrib 6:04pm
  • LHR: Asr 3:43pm Maghrib 5:21pm
  • ISB: Asr 3:43pm Maghrib 5:22pm
  • KHI: Asr 4:28pm Maghrib 6:04pm
  • LHR: Asr 3:43pm Maghrib 5:21pm
  • ISB: Asr 3:43pm Maghrib 5:22pm

لاس اینجلس آتشزدگی: ’یہ وہ جگہ ہے جو رہائش کے لیے بہترین سمجھی جاتی تھی‘

شائع 15 جنوری 2025 01:13pm

امریکا کے دوسرے بڑے شہر لاس اینجلس کی بے قابو صورت حال کے حوالے سے ’قیامت خیز‘ اور ’جہنم‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب لاس اینجلس کے بڑے حصے آگ کی لپیٹ میں آئے ہوں لیکن جس شدت اور بڑے رقبے پر یہ آگ پھیلی ہے، بلاشبہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اب تک آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے لیکن ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے گورنر اور لاس اینجلس کے میئر کو ری پبلکن جماعت کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کچھ ری پبلکن رہنماؤں نے تنوع اور صاف توانائی کو فروغ دینے کی کوششوں کو مسئلے کی وجہ قرار دیا۔ جو بھی موسمیاتی تبدیلی کو تباہی کی وجہ کے طور پر بتاتا ہے، اسے یہ کہہ کر چپ کروادیا جاتا ہے کہ وہ صورت حال کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سال 2024ء گرم ترین سال تھا جہاں درجہ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیس کی حد عبور کرگیا۔ موسمیاتی سائنسدانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر یہ اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین کی آب و ہوا میں تبدیلی رونما ہورہی ہے، طوفان، سیلاب آرہے ہیں، جنگلات میں آگ لگ رہی ہے جبکہ خشک سالی بھی گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے جس کے باعث مختلف خطوں میں خوراک کی قلت پیدا ہوئی ہے۔

رواں ماہ کیلی فورنیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ لاس اینجلس کے خشک موسم کے باعث مزید بھڑک رہی ہے جبکہ سینٹا اینا کی غیرمعمولی تیز ہواؤں کی وجہ سے شعلے ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ فائر فائٹرز کی کم فنڈنگ بھی ایک مسئلہ ہے جبکہ شہر میں موجود ہائیڈرنٹس میں بھی پانی ختم ہوچکا ہے جس کے باعث آگ پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

تاہم کچھ لوگ اس حقیقت کو نظرانداز کررہے ہیں کہ اگر یہ خوفناک آگ کیلی فورنیا کے بجائے کسی اور ریاست میں لگی ہوتی تب بھی صورت حال اس سے کچھ مختلف نہ ہوتی بلکہ نتائج اس سے بدتر ہی ہوتے۔

امریکا کی جنوب مغربی ریاست کیلی فورنیا کا نام ’کےلف‘، ہسپانوی لفظ ’کیلف‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی متعدد زبانوں میں خلیفہ ہے۔ کیلی فورنیا کی تاریخ میں آگ کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں جبکہ اس ریاست میں عمارتوں کو آگ سے محفوظ بنانے سے متعلق سخت قوانین ہیں لیکن حالیہ آگ میں یہ ضوابط و قوانین بھی کارگر ثابت نہیں ہوئے۔

اس کے علاوہ یہ ضوابط صرف نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ جو رہائشی و کمرشل تعمیرات پہلے سے موجود ہیں، ان کی طرزِ تعمیر انہیں آگ سے محفوظ نہیں بناتیں جبکہ پرانے علاقے تو لوگوں کے لیے قابلِ رہائش بھی نہیں کیونکہ یہاں آگ لگنے کے خطرات زیادہ ہیں۔

1998ء میں ماہر شہری آبادی، تاریخ دان اور سیاسی کارکن مائیک ڈیوس نے لاس اینجلس کے ساحلی علاقے مالیبو کو ’شمالی امریکا یا شاید پوری دنیا میں جنگلات میں لگنے والی آگ کے دارالحکومت‘ کے طور پر بیان کیا۔

ساتھ ہی 1993ء کی جنوبی کیلی فورنیا کی خوفناک آگ، طوفان اور زلزلے کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ پیش گوئی بھی کی کہ ’جب تک لوگ سینٹا مونیکا جیسے علاقوں میں گھر بناتے رہیں گے تب تک 1993ء کی طرح خوفناک آتشزدگی کے واقعات کو روکا نہیں جاسکتا‘۔ انہوں نے اپنے قارئین کو یاد دہانی کروائی کہ ’19ویں صدی سے جنگلات یا پہاڑیوں میں لگنے والی آگ مالیبو کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے‘۔

آئندہ ہفتے حلف لینے والے امریکی صدر کی طرح موسمیاتی تبدیلی سے انکاری متعدد افراد، ان معلومات کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ موسمیاتی سائنسدان ماضی میں پیش آنے والے واقعات کو نظرانداز کررہے ہیں۔ تاہم یہ وہی لوگ ہیں جو اس حقیقت پر آنکھ بند کیے ہوئے ہیں کہ انسانی سرگرمیاں جیسے فوسل فیول جلانے اور صنعت کاری نے پہلے سے وجودی موسمیاتی مسائل کو مزید ہوا دی ہے اور انسانی عوامل کی وجہ سے یہ شدت اختیار کرچکے ہیں۔

اگرچہ اب ماحول دوست متبادل کا استعمال زیادہ آسان ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ جو ایک بار پھر وائٹ ہاؤس میں قدم جمانے والے ہیں، ان کی ذہنیت تیل اور گیس کے ذخائر کے لیے کھدائی کرنے کے گرد گھومتی ہے کیونکہ اس سے تیل اور گیس کا کاروبار کرنے والی ان کمپنیز کو فائدہ پہنچے گا جو امریکی سیاست میں فنڈنگ کرتی ہیں۔ ان کمپنیز کو صرف زیادہ منافع کمانا مقصود ہے جبکہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ زمین پر رہائش کی صورت حال آنے والے سالوں میں بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی۔

یہ اتفاق نہیں کہ انتخابات میں ٹرمپ کی جیت کے بعد وال اسٹریٹ کی متعدد مالیاتی فرمز نے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے اپنے مقاصد کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ کچھ افراد ڈونلڈ ٹرمپ کا اطالوی فاشسٹ آمر بینیتو موسولینی سے موازنہ کرتے ہیں لیکن یہ سلطنت روم کے قیصر نیرو سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔ نیرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 64ء میں جب روم جل کر بھسم ہورہا تھا تب وہ ایک پہاڑی پر بیٹھ کر ساز بجا رہا تھا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صرف اپنی دولت میں اضافے سے غرض ہے جبکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہر طرف ان ہی کا بول بالا ہو۔ لیکن اگر انہوں نے اسی سوچ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا تو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کوششیں کئی دہائیاں پیچھے چلی جائیں گی جس کا خمیازہ ہمارے کرہِ ارض کو اٹھانا پڑے گا۔

نیرو، جولیو-کلاڈیوس سلطنت کا آخری شہنشاہ تھا جو اپنے عیاش طرزِ زندگی کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ نیرو کے بعد رومن سلطنت چند صدی ہی قائم رہ پائی۔ تاہم امریکی سلطنت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ میں نسل کشی جیسے سنگین جرم کی مرتکب ہے، یہ شاید اتنی مزاحمت نہ کرپائے۔ سوال یہ ہے کہ جب امریکا زوال پذیر ہوگا تو کیا یہ اپنے ساتھ پوری دنیا کو لے کر ڈوبے گا؟

20ویں صدی کے آغاز میں جب امریکا کے کچھ حصے گرد کے طوفانوں (دی ڈسٹ بول) کی لپیٹ میں تھے تب اوکلاہوما اور ملحقہ ریاستوں سے متعدد پناہ گزینوں نے کیلی فورنیا کا رخ کیا لیکن ان کے لیے کیلی فورنیا میں گزر بسر کرنا مشکل رہا۔ 1930ء کی دہائی میں فوک گلوکار ووڈی گتھری کے مطابق، ’کیلی فورنیا جنت کا باغ ہے، جہاں رہنا جنت میں رہنے کی طرح ہے۔ لیکن آپ مانے یا نہ مانیں اگر آپ کے پاس پیسے نہیں تو یہاں رہائش بہت مشکل ہے‘۔

تین دہائی بعد ووڈی کی طرح ایک اور ثقافتی گلوکار فل اوچس نے ہمیں یاد کروایا، ’تو جدیدت کے سنہرے خواب کی حقیقت یہ ہے، اور صرف ہم ہی یہ بات جانتے ہیں، تو اس شہر کی راکھ بھری فضا میں سانس لیں، یہ وہ جگہ ہے جسے پناہ گزین رہائش کے لیے بہترین سمجھتے تھے‘۔ اس گانے کا عنوان ’دی ورلڈ بیگن ان ایڈن اینڈ اینڈڈ ان لاس اینجلس‘ (دنیا جنت میں شروع ہوئی اور لاس اینجلس میں ختم) ہے۔

ہم صرف امید کرسکتے ہیں کہ فل اوچس کیلی فورنیا کے مستقبل کے حوالے سے غلط ہوں لیکن آگے کیا ہوگا اس بارے میں یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 15 جنوری 2025
کارٹون : 14 جنوری 2025