• KHI: Maghrib 6:03pm Isha 7:23pm
  • LHR: Maghrib 5:20pm Isha 6:46pm
  • ISB: Maghrib 5:21pm Isha 6:49pm
  • KHI: Maghrib 6:03pm Isha 7:23pm
  • LHR: Maghrib 5:20pm Isha 6:46pm
  • ISB: Maghrib 5:21pm Isha 6:49pm

’لاس اینجلس کی آگ اور غزہ میں نسل کشی، دونوں انسان کے پیدا کردہ المیے ہیں‘

شائع January 14, 2025 اپ ڈیٹ January 14, 2025 01:12pm

لاس اینجلس جل رہا ہے، اور اس کی لپیٹ میں امیر اور غریب سب ہی آرہے ہیں۔ غزہ خاکستر ہو چکا، جہاں ایک مسلسل ظلم کا شکار عوام کی بڑی تعداد متاثر ہو رہی ہے، مگر اس ظلم کا شکار کرنے والوں کو بھی اس سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ آگ اور خون ریزی دونوں ہی انسانوں کی پیداوار ہیں اور یہ آپس میں جڑے ہوئے ہیں، حالانکہ اسے ایسا تسلیم کرنا آسان نہیں۔

اس المیے کی مثال اس ہرن کی طرح ہے جو قریب آتی گوالے کی گاڑی کی ہیڈلائٹس کی وجہ سے دیکھ نہیں پاتا اور وہ گاڑی ہرن کو روندتی ہوئی گزر جاتی ہے کیونکہ گوالے کا شیڈول تو طے تھا اور وہ اپنے وقت پر ہی دودھ کی ترسیل کے لیے نکلا تھا۔ یعنی اس وقت پوری دنیا اسی ہرن کی طرح اپنی جانب آتی تباہی کو دیکھ نہیں سکتی۔ یہ عالمی بحران اچانک نہیں ہوا بلکہ ایک صدی سے زائد عرصے سے مسلسل زمین کے ماحولیات کو نقصانات پہنچا کر ہم خود اسے تباہی کے دہانے تک لے آئے ہیں۔

اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ دنیا اب بھی آفت کے خلاف جوہری اور بارودی مواد پر انحصار کرکے غیرضروری خود اعتمادی کا شکار ہے۔ اسرائیل کو اس المیے کی علامت کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ نازی کے ظلم و ستم کا شکار ہونے والے یہودیوں کی پناہ گاہ کے طور پر وجود میں آنے والی ریاست اب خود ہی نازی جرمنی بن چکی ہے۔

جس طرح نازیوں نے زمین کی بھوک اور خون کی پیاس کے لیے یورپی تعصب پسندانہ سوچ کا سہارا لیا، ویسے ہی یہودیوں نے صہیونیت اپنائی اور نازیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اب وہ فلسطینیوں سے ان کی زمین ہتھیا کر اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کررہے ہیں۔

اسرائیل کو کبھی نہ ڈوبنے والی کشتی میں تبدیل کردینے والی سامراجیت کو ہمیشہ جواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ تو صرف کسی پر بھی اپنی آنکھیں گاڑ لیتا ہے پھر چاہے وہ اپنے ہی اتحادی کینیڈا اور گرین لینڈ کیوں نہ ہوں۔ اگرچہ بہت سے لوگ موسمیاتی تبدیلی کو اہم قرار دیتے ہیں لیکن اقتدار میں بیٹھے لوگ اس سے انکار کریں گے کیونکہ ان کے لیے قدرتی وسائل کا حصول ترجیح ہے۔

بھارت میں بڑی کمپنیز جو حکومت کے قریب ہیں، وہ قوم کے قدرتی وسائل کا کنٹرول حاصل کررہی ہیں۔ وہ جنگلات اور پانی کے وسائل کو کم سے کم کررہی ہیں جبکہ مقامی لوگ نقل مکانی کررہے ہیں۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں کہ ہمالیہ کی برف پگھل رہی ہے، دریا خشک ہورہے ہیں اور نہ اس بات کی فکر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں سندھ طاس معاہدے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

گوالے کی گاڑی کی طرح یہ المیہ بھی چین کی تیز رفتار بلٹ ٹرین کی طرح ہماری جانب بڑھ رہا ہے جبکہ اس سے حفاظت کے لیے ہمارے پاس کوئی طریقہ کار نہیں ہیں۔ یہ کسی یونانی المیے میں تبدیل ہوسکتا ہے جس کے اختتام پر عموماً کہانی کے مرکزی کرداروں میں سے کسی کی موت ہوجاتی ہے اور اس موت کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی ہیرو پر قسمت مہربان نہیں ہوتی۔ لیکن اس تمام تر افراتفری میں ڈونلڈ ٹرمپ ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں کوئی پروا نہیں۔

کتنا ہی اچھا ہوتا اگر دنیا کی خوشی اور غم امریکا کے 4 سالہ موڈ (صدارتی مدت) پر منحصر نہ ہوتے جس کے فیصلے ہر انتظامیہ کے مفادات کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن دنیا کے معاملات ایسے تو نہیں چلتے۔ اگلے ہفتے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کا آغاز ہونے جا رہا ہے جوکہ جلد ہی پریشانیوں کا بھی باعث بنے گی۔

کلیدی مفادات اچانک سے تبدیل ہوچکے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اتحادیوں سے زیادہ کی امید کررہے ہیں جبکہ بلاشبہ اتحادی گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ زیادہ واضح الفاظ میں کہیں تو ٹرمپ کسی کے لیے امید تو کسی کے لیے پریشانی کا سبب بنے ہیں۔ اور یہ انتہائی واضح ہے۔

ایک جانب توقع کے مطابق چینی صدر نے 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت سے معذرت کرلی ہے وہیں دوسری جانب رپورٹس ہیں کہ بھارتی وزیراعظم مدعو نہیں کیے جانے پر خفا ہیں۔ واشنگٹن میں موجود بھارتی وزیرخارجہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی نریندر مودی کو اس تقریبِ حلف برداری میں مدعو نہیں کیا گیا جس کے لیے فورچیون میگزین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 کروڑ ڈالرز جمع کیے ہیں۔

بھارتی رپورٹس کے مطابق، نریندر مودی نہیں بلکہ وزیر خارجہ کو بھارتی نمائندے کے طور پر تقریب حلف برداری کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ یہ صورت حال اس اعتبار سے بھی عجیب ہے کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی نے عوامی سطح پر ٹرمپ کی انتخابات میں حمایت کی تھی۔ مودی کے اس عمل نے جہاں دنیا کو حیران کیا وہیں بھارتیوں نے شرمندگی محسوس کی کیونکہ گزشتہ انتخابات میں ٹرمپ شکست سے دوچار ہوچکے تھے۔

تاہم اپنے حالیہ دورہ امریکا میں، رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی ملاقات طے تھی جوکہ مودی سے مل کر جمہوریت پسند بھارتی نژاد امریکی کمیونٹی سے انتخابی حمایت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ بہ ظاہر مودی نے انتخابی نتائج کا غلط اندازہ لگایا اور انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات نہیں کی۔

جنوبی ایشیا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت سے متعلق امیدیں اور خدشات پائے جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا گلوبل ساؤتھ کو لے کر سب سے بڑا خدشہ برکس ہے۔ اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ کوئی بھی جنوبی ایشیائی ملک امریکی سامراجیت کے اس بہترین متبادل سے منہ موڑ لے جو برکس پیش کرتا ہے۔

انفرادی سطح پر مضامین میں یہ بھی لکھا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور شاید وہ اقتدار میں واپسی میں عمران خان کی مدد کریں گے۔ تاہم فی الحال صورت حال زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ جن کی حمایت کریں گے، وہ ان سے جواب میں توقعات بھی رکھیں گے جیسے کہ برکس کے خلاف ہو جانا وغیرہ۔

الزامات ہیں اور ان الزامات پر یقین کرنے کی وجوہات بھی موجود ہیں کہ ماسکو میں ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ عمران خان کے خلاف ہوگئی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھ رچرڈ گرینل نے عوامی سطح پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

بنگلہ دیش میں بھی بےچینی ہے جہاں موجودہ حکومت کے ہیلری کلنٹن کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ 2018ء میں امبانی کی شادی میں بھنگڑا کرنے کے بعد سے انہیں بھارت کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ بات بھی راز نہیں کہ امبانی خاندان نریندر مودی کی حمایت کرتا ہے۔ خطے کے دیگر ممالک کے لیے آئندہ چار سالوں میں امریکا کے ساتھ تعلقات ممکنہ طور پر اس بنیاد پر تشکیل پائیں گے کہ امریکا چین کے ساتھ کیسا رویہ رکھتا ہے جوکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل ہے۔

دوسری جانب دنیا اس وقت دو برے انتخاب کے درمیان پھنسی ہے۔ امریکی انتظامیہ جو رخصت ہورہی ہے اس کا غزہ میں نسل کشی کے واقعات میں بہت بڑا کردار رہا ہے۔ اس کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ روس کی تضحیک اور اس کے خلاف اشتعال انگیزی کا استعمال کرکے امریکا نے یوکرین کی جنگ میں تعاون کیا ہے جہاں تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔

میری دوست جس نے امریکی شہریت سے دستبرداری کے لیے رجوع کیا، اس سمیت دیگر امریکی ناقدین ڈونلڈ ٹرمپ کو ریئل اسٹیٹ ٹائیکون کے طور پر دیکھتے ہیں جو سول وار کے بعد سے امریکا کے سب سے زیادہ اختلاف رائے پیدا کرنے والے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان ناقدین کا ماننا ہے کہ ’میک امریکا گریٹ اگین‘ کا ان کا نظریہ امریکا کو مزید پیچھے لے جائے گا۔ اس لیے انہیں سب سے پہلے اپنے مخالفین سے بات چیت کرنا ہوگی جوکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دنیا کو دیکھنے کے نظریے کےحوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

لگتا یہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا صنفی حقوق، موسمیاتی تبدیلی اور نسلی تعلقات کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری پیچیدہ اندرونی اور عالمی پالیسیز پر تقسیم کا شکار ہوجائے گا۔ اگر ٹرمپ کے لیے معاملات غلط ہوجاتے ہیں تو یہ ان کی مخالفت کرنے والوں کے لیے بہترین نتیجہ ہوسکتا ہے۔

گوالے کی گاڑی کو کسی رکاوٹ سے ٹکرا جانا چاہیے تاکہ ہرن کو بھاگنے کا موقع مل سکے۔ کبھی کبھی کوئی بدترین واقعہ یا اچانک آنے والی تبدیلی، بدتر صورت حال سے فرار کا راستہ فراہم کرتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 14 جنوری 2025
کارٹون : 13 جنوری 2025