پاکستان کی حالیہ فضائی کارروائی سے پاک-افغان مذاکرات کس حد تک متاثر ہوں گے؟
افغانستان میں تقریباً تین سال قبل جب طالبان حکومت کی واپسی ہوئی تو پاکستان کے پالیسی سازوں کو امید تھی کہ ان کی واپسی سے مغربی سرحد کی صورت حال میں کسی حد تک استحکام آئے گی۔ یہ پاکستان کے لیے اہم تھا کیونکہ اسے اپنی مشرقی سرحدوں، بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا سامنا ہے۔
لیکن یہ مفروضہ کہ طالبان دور میں پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہوں گی، اسٹریٹجک طور پر غلط اندازہ ثابت ہوا۔ جلد ہی اس بات کے شواہد سامنے آنے لگے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا۔ انہوں نے سرحد پار حملوں کا سلسلہ تیز کیا اور یہ پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن کر سامنے آیا۔
ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرکے طالبان حکومت، پاکستان کی توقعات پر پوری نہیں اتری جسے امید تھی کہ وہ پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کو دور کریں گے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی پے در پے رپورٹس نے پاکستان کے اس مؤقف کو تقویت بخشی کہ ’افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد تمام غیرملکی انتہا پسند گروپس میں سب سے زیادہ فائدہ ٹی ٹی پی کو ہوا‘۔
جولائی 2024ء کی اس کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ٹی ٹی پی افغانستان میں سب سے بڑا دہشت گرد گروپ ہے جس میں شامل عسکریت پسندوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 6 ہزار سے ساڑھے 6 ہزار کے درمیان ہے‘۔ یہ افغانستان میں ’بڑے پیمانے پر متحرک ہے اور پاکستان میں سرحد پار سے دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا ہے‘۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’طالبان، ٹی ٹی پی کو دہشت گرد گروہ نہیں سمجھتے، ان کے قریبی تعلقات ہیں جبکہ وہ ٹی ٹی پی کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں‘۔ اسی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کو افغانستان کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس سے مدد ملتی ہے جبکہ وہ اس گروہ کو سپروائز بھی کرتا ہے۔ جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کا مقصد طالبان کے اصل دشمن اسلامک اسٹیٹ خراسان میں طالبان اراکین کی شمولیت کو روکنا ہے۔ دوسری جانب ٹی ٹی پی کے القاعدہ کے ساتھ بھی روابط برقرار ہیں۔
گزشتہ سال پاکستان میں سرحد پار دہشت گرد حملوں کے سلسلے میں شدت آئی جبکہ قانون نافذ کرنے والےاداروں کے اہلکاروں کی اموات میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا جس سے پاکستان میں سلامتی کے خطرات نے سر اٹھایا۔ درحقیقت 2024ء میں ایک دہائی بعد دہشت گردانہ حملوں میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں۔
پاکستانی اور طالبان حکام کے درمیان ٹی ٹی پی سے متعلق ساڑھے تین سالہ بات چیت کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ طالبان نے ٹی ٹی پی کو ’سنبھالنے‘ کے لیے وقت طلب کیا تو کبھی پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ عسکری گروپ سے مذاکرات کرے اور کبھی ان انتہاپسندوں کے ٹھکانوں کو سرحدوں سے دور کرنے کی یقین دہانی کروائی جبکہ ایسا کرنے کے لیے انہوں نے مالی امداد کی بھی درخواست کی۔
صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر پاکستانی حکام نے کابل کے لیے سخت مؤقف اختیار کرنا شروع کیا اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں اور انتہاپسندوں کو غیراعلانیہ آپریشنز میں نشانہ بنایا۔ پاکستان کی قیادت کی جانب سے سخت بیانات جاری کیے گئے۔ طالبان حکام سے کہا گیا کہ وہ ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان کسی ایک کو چُنیں۔ پاک فوج کے ترجمان نے ’دہشت گردوں کو مسلح کرنے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے لیے‘ براہ راست افغان عبوری حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف نے کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں حملے اور معصوم لوگوں کو مارنے سے ٹی ٹی پی کو روکیں اور اسے پاکستان کی ریڈ لائن قرار دیا۔
دسمبر کے اواخر میں جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں ایک سرحدی چوکی پر ٹی ٹی پی کے انتہاپسندوں نے حملہ کیا جس میں 16 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ اس واقعے نے پاکستان کو جوابی کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔ 24 دسمبر کو پاکستان کے لڑاکا طیاروں نے پکتیکا صوبے میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی۔
طالبان حکام نے سخت احتجاج کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی فورسز نے وزیرستان سمیت پاکستان کی سرحد سے متصل متعدد علاقوں میں جوابی کارروائیاں بھی کی ہیں۔ ان مسلح جھڑپوں نے پہلے سے کشیدگی کا شکار تعلقات کو مزید سنگین رخ دیا ہے۔
یہ اب ایک ایسے وقت میں ہوا کہ جب پاکستان کے خصوصی مندوب محمد صادق افغانستان میں تھے اور کابل میں افغان حکومت کے نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر اور دیگر طالبان حکام کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کیا جاسکے۔ حالیہ فضائی کارروائی کو ایک جانب کردیا جائے تو محمد صادق کا دورہ، پاکستان کی جانب سے ایک سال سے زائد عرصے سے اپنائی گئی سخت پالیسی اقدامات کے بعد افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کی نشاندہی کرتا ہے۔
ان سخت پالیسی اقدامات میں غیراعلانیہ فضائی حملوں کے علاوہ (اور اپریل 2024ء میں افغانستان میں اسٹرائیک جس کا اعتراف پاکستان نے بھی کیا تھا)، ٹرانزٹ ٹریڈ پابندیاں اور غیر قانونی افغان مہاجرین کو پاکستان سے بے دخل کرنا شامل تھے۔ ان آپریشنز کو عموماً پاکستان کی فوج کی جانب سے ملٹری بیس آپریشنز کہا جاتا ہے جن کا مقصد ٹی ٹی پی کی صلاحیتوں کو کم کرنا ہوتا ہے۔
ان اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ طالبان کو ٹی ٹی پی کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے نقصانات کا ادراک ہو۔ تاہم ان اقدامات کے بھی محدود نتائج سامنے آئے۔ ایک سال تک سخت مؤقف پر ڈٹے رہنے کے بعد پاکستانی حکام نے فیصلہ کیا کہ اس وقت کابل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مزید کشیدہ ہونے سے روکنے کے لیے ایک سال سے بند بات چیت کے دروازوں کو دوبارہ کھولنا ہوگا تاکہ تجارت اور سلامتی کے مسائل کے حل کے لیے کوئی راہ تلاش کی جاسکے۔ دونوں فریقین ہی ان مذاکرات میں دلچسپی رکھتے تھے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اور ٹرانزٹ ٹریڈ ایک سال سے زائد عرصے سے بند ہے۔
درحقیقت طالبان حکام اور محمد صادق کی قیادت میں پاکستان کے ہائبرڈ وفد (جس میں ملٹری حکام بھی شامل ہیں) کے درمیان بات چیت کا مقصد معاشی تعاون کو بہتر بنانا ہے۔ انہوں نے اہم تجارتی امور بشمول ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی تجدید اور ترجیحی تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے ساتھ ساتھ ایک دستاویزی نظام جس کو پاکستان اپنی سرحدی کنٹرول پالیسی کے طور پر نافذ کر رہا ہے، پر بات چیت کی۔
وفاقی ذرائع کے مطابق یہ مذاکرات مثبت سمت اور ’تعاون پر مبنی ماحول‘ میں آگے بڑھ رہے تھے۔ جنوری میں دوبارہ اعلیٰ سطح کے دوروں پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن پھر ایئر اسٹرائیکس ہوگئیں۔
اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان مسلح جھڑپوں اور سخت بیانات کے تبادلوں کی وجہ سے سفارتی مذاکرات میں خلل ضرور آیا ہے لیکن ان کی جلد بحالی کی امید ہے۔ یہ نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کی حکمت عملی میں عارضی طور پر تبدیلی آئی ہے جوکہ صرف طالبان حکام کے خلاف سخت اقدامات لینے پر مرکوز تھی اور ٹی ٹی پی سے متعلق ایجنڈا سے متعلق تھی۔
پاکستانی حکام، کابل کو پہلے ہی خبردار کر چکے تھے کہ اگر افغان سرزمین سے پاکستان پر کوئی بڑا حملہ ہوا تو وہ جوابی کارروائی کریں گے اور حملہ آوروں کا تعاقب کریں گے۔ اموات کو درگزر نہیں کیا جائے گا اور پاکستان مجبور ہوجائے گا کہ وہ ملٹری کارروائیاں کرے۔
سزا اور جزا کی حالیہ پالیسی پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کا منصوبہ بنانے میں مدد دے گی۔ اسلام آباد پُرامید ہے کہ سفارتی تعلقات اور تجارتی ترغیبات کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کے معاملے پر دباؤ کے مشترکہ اثرات طالبان حکام کو پاکستان کے سیکیورٹی خدشات دور کرنے پر آمادہ کریں گے۔
افغان طالبان کی کوششوں پر انحصار کرتے ہوئے پاکستان سزا اور جزا کی پالیسی کو اپنانے کے لیے پُرعزم ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ چین اور افغانستان کے دیگر ہمسایوں کے ساتھ علاقائی تعاون کی حکمت عملی تیار کرے تاکہ دہشتگردی جوکہ پورے خطے کے لیے خطرہ ہے، اس سے نمٹنے کے لیے کابل پر دباؤ ڈالا جاسکے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔