ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد خصوصی ایلچی کا ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ئی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کو رہا کیا جائے، ان پر ویسے ہی الزامات ہیں جیسے ڈونلڈ ٹرمپ پر تھے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’نیوز میکس‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ سابقہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے بہترین تعلقات تھے۔
رچرڈ گرینل کہنا تھا کہ چاہتے ہیں سابق وزیراعظم عمران خان کو رہا کیا جائے، ان پر ویسے ہی الزامات ہیں جیسے ڈونلڈ ٹرمپ پر تھے۔
ترجمان محکمہ خارجہ میتھیو ملر کے عمران خان سے متعلق بیان کے حوالے سے رچرڈ گرینل کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے پیچیدہ گفتگو کی، ان کا کہنے کا مطلب یہی تھا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم کو رہا کیا جائے۔‘
’نامزد وزیرخارجہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے‘
نومنتخب امریکی صدر کے نامزد کردہ خصوِصی ایلچی رچرڈ گرینل نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد وزیرخارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے۔
رچرڈ گرینل کا مزید کہنا تھا کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل ملکوں سے مختلف انداز میں ڈیل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بائیڈن انتظامیہ پر پاکستان کے حوالے سے معاملات کو آگے بڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’جوبائیڈن انتظامیہ جوکام 4 سال میں کرنے میں ناکام رہی وہ آخری 45 دن میں کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
خیال رہے کہ رچرڈ گرینل نے گزشتہ ماہ سے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر عمران خان کے حوالے سے پوسٹ کرنا شروع کی تھی، 26 نومبر کو جانے والی ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ ’عمران خان کو رہا کیا جائے۔
اسی طرح ایک دوسری پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح عمران خان پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ جیل میں ہیں۔’
واضح رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے 16 دسمبر کو ’انڈپینڈنٹ اردو‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں رچرڈ گرینل کی مذکورہ ’ایکس‘ پوسٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مختلف شخصیات کی مختلف آرا ہوتی ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ ان (رچرڈ گرینل) کی ایسی ایکس پوسٹ کسی بھی طرح سے بامعنی ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے رچرڈگرینل کی تعیناتی کے حوالے سے کہا تھا کہ ’ عمران خان کی رہائی کے حوالے سے امریکا کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔’
دوسری طرف گزشتہ ہفتے ( 19 دسمبر) کو امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ پابندیوں میں نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس سمیت ان 4 اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ اس طرح کے ہتھیاروں کے پھیلاؤ یا ترسیل میں حصہ لے رہے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری کے مسلسل پھیلاؤ کے خطرے کی روشنی میں کیا گیا ہے۔
بعدازاں امریکی نائب مشیر برائے قومی سلامتی جان فائنر نے کہا تھا کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں سے لیس ایسے میزائل بنا رہا ہے، جو جنوبی ایشیا سے باہر اور امریکا میں بھی اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
امریکی نائب قومی سلامتی کے مشیر جون فائنر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کا طرز عمل بیلسٹک میزائل پروگرام کے مقاصد کے بارے میں ’حقیقی سوالات‘ کو جنم دیتا ہے۔
جان فائنر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اقدامات کو امریکا کے لیے ابھرتے ہوئے خطرے کے علاوہ کسی اور طرح دیکھنا مشکل ہے۔
دریں اثنا وزیر اعظم شہباز شریف نے پابندیوں کے حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی پابندیاں بلاجواز ہیں، پاکستان کا جوہری پروگرام سو فیصد دفاعی مقاصد کے لیے ہے، یہ جوہری پروگرام ملک کے 24 کروڑ عوام کا پروگرام ہے جس پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ نیشنل ڈیفنس کمپلیکس اور دیگر اداروں پر امریکی پابندیوں کا کوئی جواز نہیں ہے، پاکستان ایسا قطعی کوئی ارادہ نہیں رکھتا کہ ہمارا جوہری نظام جارحانہ عزائم پر مبنی ہو، یہ سو فیصد دفاعی نظام ہے، پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی جاتی ہے تو ہم صرف اپنا دفاع کریں گے۔