• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:25pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:25pm

نان رجسٹرڈ مدارس میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ، ریپ کیس رپورٹ ہوتے ہیں، سینیٹر ثمینہ ممتاز

شائع December 19, 2024
سینیٹر ثمینہ ممتاز  نے کہا کہ غیر رجسٹرڈ مدارس میں اساتذہ غیر تربیت یافتہ ہیں—فائل فوٹو:
سینیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا کہ غیر رجسٹرڈ مدارس میں اساتذہ غیر تربیت یافتہ ہیں—فائل فوٹو:

سینیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا ہے کہ غیر رجسٹرڈ مدارس میں اساتذہ غیر تربیت یافتہ ہیں اور مداس میں ریپ کیسز بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔

وفاقی وزارت تعلیم نے ملک کے ایوان بالا (سینیٹ) میں مدارس رجسٹریشن سے متعلق تحریری جواب جمع کرادیا جس میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں ڈائریکٹوریٹ جنرل مذہبی تعلیم کے ذریعے رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 17 ہزار 738 ہے۔

وزارت تعلیم نے مزید کہا کہ ان رجسٹر مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 22 لاکھ 49 ہزار 520 ہے، پنجاب میں 6 لاکھ 64 ہزار 65 طلبہ زیر تعلیم ہیں، سندھ میں ایک لاکھ 88 ہزار 182، بلوچستان میں 71 ہزار 815 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

تحریری جواب میں کہا گیا کہ کے پی میں 12 لاکھ 83 ہزار 24، آزاد کشمیر میں 26 ہزار 787 طلبہ زیر تعلیم ہیں، اسلام آباد میں 11 ہزار 301 گلگت بلتستان میں 4 ہزار 346 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

وزارت تعلیم نے کہا کہ ان مدارس کی براہ راست کوئی فناسنگ نہیں کی، ڈی جی آر ای نے 598 مدارس کو 1196 اساتذہ فراہم کیے ہیں۔

بعد ازاں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ملک کے ایوان بالا کے اجلاس میں چیئرپرسن سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غیر رجسٹرڈ مدارس میں ٹیچرز غیر تربیت یافتہ ہیں، مداس میں ریپ کیسز بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔

اس پر وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جو ٹیچرز ڈی جی آر ای بھیجتے ہیں، تربیت یافتہ ہوتے ہیں، ڈی جی آئی ای ٹیچرز کی تربیت کرتا ہے۔

سینیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا کہ مداس کے حوالے سے کوئی ایجوکیشن ریفارمز ہیں، میرے سوالات کے جوابات درست طریقہ سے نہیں دیے گئے۔

واضح رہے کہ ان دنوں مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ حکومت اور اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان وجہ تنازع بنا ہوا ہے، 2 روز قبل پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن میں حکومت سب سے بڑی خود رکاوٹ ہے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دوبارہ بلانا غیر آئینی ہوگا، مدارس بل میں کوئی ترمیم قبول نہیں کریں گے، معاملہ آگے پیچھے گیا تو فیصلہ ایوان نہیں میدان میں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2004 میں مدارس کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے، پہلا سوال یہ تھا کہ دینی مدارس کا مالیانی نظام کیا ہے؟ دوسرا سوال تھا کہ مدارس کا نظام تعلیم کیا ہے؟ تیسرا سوال تھا کہ دینی مدارس کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہوتا ہے؟

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن میں حکومت سب سے بڑی خودرکاوٹ ہے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دوبارہ بلانا غیر آئینی ہوگا، مدارس بل میں کوئی ترمیم قبول نہیں کریں گے، معاملہ آگے پیچھے گیا تو فیصلہ ایوان نہیں میدان میں ہوگا۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے پاس ہوئی تھی،کوشش یہ ہےکہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں، سیاست میں مذاکرات ہوتے ہیں، دونوں فریق ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2004 میں مدارس کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے، پہلا سوال یہ تھا کہ دینی مدارس کا مالیانی نظام کیا ہے؟ دوسرا سوال تھا کہ مدارس کا نظام تعلیم کیا ہے؟ تیسرا سوال تھا کہ دینی مدارس کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہوتا ہے؟ ان سوالات پر مذاکرات ہونے کے بعد جب حکومت مطمئن ہوگئی تو اس وقت ایک قانون سازی ہوئی۔

واضح رہے کہ 12 دسمبر کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ مدارس بل ایکٹ بن چکا، نوٹی فکیشن جاری کیا جائے، دینی مدارس کے معاملے کو غیر ضروری طورپر الجھا دیا گیا، ہمارا علما سے کوئی اختلاف نہیں، ہماری شکایت صرف اور صرف ایوان صدر اور صدر مملکت سے ہے۔

13 دسمبر کو مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت آصف زرداری کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات سامنے آئے تھے۔

آصف زرداری نے اعتراض میں مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 اور اسلام آباد کیپٹیل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 کا حوالہ دیا تھا۔

صدر مملکت نے کہا تھا کہ دونوں قوانین کی موجودگی میں نئی قانون سازی ممکن نہیں ہو سکتی، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 اسلام آباد کی حدود میں نافذ العمل ہے۔

انہو ں نے کہا تھا کہ نئے بل میں مدرسہ کی تعلیم کی شمولیت سے 1860 کے ایکٹ کے ابتدائیہ کے ساتھ تضاد پیدا ہو گا، اس قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو گا۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ایک ہی سوسائٹی میں بہت سے مدرسوں کی تعمیر سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہو گا، سوسائٹی میں مدرسوں کی رجسٹریشن سے مفادات کا ٹکراؤ ہو گا، ایسے مفادات کے ٹکراؤ سے عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جس پر اگلے روز رہنما جے یو آئی (ف) حافظ حمد اللہ کا کہنا تھا کہ مدارس رجسٹریشن بل پر صدر کے اعتراضات سے بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، صدر مملکت کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات سے ثابت ہوا کہ پارلیمنٹ پاکستان کا نہیں فیٹف کا پارلیمنٹ ہے۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2024
کارٹون : 19 دسمبر 2024