اسرائیل کی گولان پہاڑیوں پر آبادی دوگنی کرنے کے منصوبے کی منظوری
اسرائیلی حکومت نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد مقبوضہ اور الحاق شدہ گولان کی پہاڑیوں پر آباد شہریوں کی تعداد کو دوگنا کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی خبر کے مطابق اس منصوبے کی منظوری کے حوالے سے وزیراعظم کے دفتر نے بتایا۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ حکومت نے جنگ، شام میں نئے محاذ کھلنے اور آبادی کو دوگنا کرنے کی خواہش کی روشنی میں گولان کی آبادیاتی میں اضافے کے لیے 40 ملین شیکل (ایک کروڑ 10 لاکھ امریکی ڈالرز) کے منصوبے کی متفقہ طور پر منظوری دی۔
اسرائیل نے 1967 سے گولان کی پہاڑیوں بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے، جو کہ ایک اسٹریٹجک پوزیشن ہے اور اس نے 1981 میں اس علاقے کو ضم کر لیا تھا جب کہ اس اقدام کی حمایت اور منظوری صرف امریکا کی جانب سے دی گئی ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ گولان کی مضبوطی اسرائیلی ریاست کی مضبوطی ہے اور یہ اس وقت خاص طور پر اہم ہے، ہم اسے بتاتے رہیں گے، اسے ترقی دیں گے اور وہاں آباد ہوں گے۔’
مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں تقریباً 23 ہزار دروز عرب آباد ہیں جو وہاں اسرائیل کے قبضے سے پہلے آباد ہیں، ان میں سے زیادہ تر شامی شہریت رکھتے ہیں، ان کے علاوہ تقریباً 30 ہزار اسرائیلی بھی ہیں۔
2روز قبل اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ گولان کی پہاڑیوں پر اقوام متحدہ کے گشت والے ’بفر زون‘ میں موسم سرما گزارنے کے لیے تیار رہے۔
گزشتہ اتوار کو اسرائیلی فوج نے شام کے صدر بشار الاسد کا اقتدار ختم ہونے کے چند گھنٹوں بعد اسٹریٹجک اہمیت کے غیر فوجی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
اسرائیل کے اس اقدام کی اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی، تاہم اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکا نے جمعرات کو کہا تھا کہ یہ اسرائیل کے دفاع کے حق کے ’عین مطابق‘ ہے۔
عالمی امن فوج (یو این ڈی او ایف) نے جمعہ کے روز ایک بیان میں اسرائیل کو مطلع کیا تھا کہ وہ 1974 کے انخلا کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جس میں شام اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے دوران بفر زون تشکیل دیا گیا تھا۔
بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اسرائیلی فوج نے شامی فوجی تنصیبات پر سیکڑوں حملے کیے ہیں، جن میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں سے لے کر فضائی دفاع تک ہر چیز کو نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ انہیں باغیوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکا جا سکے۔
اسرائیل کی جانب سے بفر زون میں فوج کی یہ تعیناتی ایسے وقت میں کی گئی تھی جب کہ اسرائیلی افواج، جنوبی لبنان سے انخلا کر رہی ہیں اور غزہ پر حملے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ شام کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر ہرمون پہاڑ کی چوٹی پر اپنی موجودگی برقرار رکھنا انتہائی اہم اور سکیورٹی اہمیت کا حامل ہے، مشکل موسمی حالات کے باوجود اپنے جنگجوؤں (اسرائیلی فوجیوں) کو وہاں رہنے کے قابل بنانے کی غرض سے تیاری یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔
اسرائیل نے کہا تھا کہ اس نے اپنے دفاع کے لیے بفر زون پر قبضہ کیا، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا تھا کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے اسرائیل کی سرحد پر ایک ’خلا‘ پیدا ہو گیا ہے، یہ تعیناتی اس وقت تک عارضی ہے جب تک کہ 1974 کے معاہدے پر کاربند ایک فورس قائم نہیں کی جاتی اور ہماری سرحد پر سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دی جاتی۔