ریاست مخالف پروپیگنڈے کا الزام، صحافی ہرمیت سنگھ کی 21 دسمبر تک عبوری ضمانت منظور
پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت قائم خصوصی عدالت اسلام آباد نے صحافی ہرمیت سنگھ کی عبوری ضمانت 21 دسمبر تک منظور کرلی۔
ڈان نیوز کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے صحافی ہرمیت سنگھ کی عبوری درخواست ضمانت 21 دسمبر تک منظور کی، صحافی ہرمیت سنگھ اپنے وکلا بینا فراز اور فرخ شہزاد کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے 20 ہزار مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرکے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو آئندہ سماعت پر ریکارڈ سمیت طلب کرلیا۔
صحافی ہرمیت سنگھ نے پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمہ میں عبوری ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے اسلام آباد میں 26 نومبر کو پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران مبینہ طور پر ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے پر صحافیوں، وی لاگرز اور اینکر پرسن ہرمیت سنگھ سمیت 150 سے زائد افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے کریک ڈاؤن کے دوران مبینہ ہلاکتوں کے بارے میں متنازع پوسٹس کرنے پر اب تک ملک بھر میں 20 سے زائد سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو گرفتار کیا ہے۔
پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈی چوک پر پارٹی کے احتجاج کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کریک ڈاؤن کے دوران 12 کارکنوں کو شہید کیا گیا تاہم حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
یہ گرفتاریاں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب وزیر اعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی احتجاج میں شامل کارکنوں کی اموات کے بارے میں ’جعلی خبریں‘ پھیلانے کے ذمہ داروں کا سراغ لگانے کے لیے ایک مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دینے کا اعلان کیا۔
ایف آئی اے نے 26 نومبر کے واقعے میں سیکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے میں ملوث ہونے پر صحافیوں اور وی لاگرز سمیت درجنوں مشتبہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
ایف آئی اے کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ سکھ صحافی ہرمیت سنگھ بھی ان میں شامل ہیں، جب کہ ملزمان کے خلاف پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کی دفعہ 9، 10، 11 اور 24 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق ہرمیت سنگھ نے مبینہ طور پر 24 سے 27 نومبر کے واقعات کے بارے میں بے بنیاد معلومات سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔
یاد رہے کہ عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کو احتجاج کے لیے دی جانے والی فائنل کال کے بعد بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں اسلام آباد کے لیے احتجاجی مارچ کیا گیا تھا۔
تاہم 26 نومبر کو مارچ کے شرکا اور پولیس میں جھڑپ کے بعد پی ٹی آئی کارکن وفاقی دارالحکومت سے ’فرار‘ ہوگئے تھے، اس کے بعد علی امین گنڈا پور اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہوئے متضاد اعداد و شمار پیش کیے تھے۔