’پاور از پاور۔۔۔‘
منگل کی شب ریاست مظاہرین کو دارالحکومت کی سڑکوں سے باہر دھکیلنے میں کامیاب تو ہوگئی لیکن تصور کریں کہ ایسا کرنے کے لیے انہیں کیا کیا کرنا پڑا۔
لاہور سے مظاہرین کی روانگی سے قبل ہی پنجاب میں بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا، حتیٰ کہ کورونا وائرس کے دوران بھی اس طرح کی صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی۔ صوبے بھر کے صنعتی مالکان سے گفتگو کرکے ان کی پھنسی ہوئی کھیپوں کے بارے میں سنیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس لاک ڈاؤن کے اثرات کتنے دور رس ہیں۔ ان کے خام مال کی کھیپ یا تو فیکٹریز آرہی تھی یا ان کی تیار کھیپ بندرگاہ پر برآمدات کے لیے جارہی تھیں جنہیں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ریاست یہ بازی تو جیت چکی ہے۔ لیکن جیتنے کے لیے انہیں ملک کے سب سے بڑے صوبے کو مکمل طور پر مفلوج کرنا پڑا جوکہ صنعتی مرکز مانا جاتا ہے۔ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعتوں کو ہونے والے نقصانات کا ذکر نہیں کرتے کیونکہ یہ ان طویل مدتی نقصانات کے مقابلے میں کچھ نہیں جو مظاہرے نے ریاست کی کمزوری کو آشکار کرکے پہنچایا جس کے نتائج سب کو بھگتنا ہوں گے۔
یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ریاست کو دارالحکومت کی سڑکوں کو خالی کروانے کے لیے طاقت کے استعمال کرنے پر اس قدر مجبور دیکھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے دیکھا کہ مظاہرین کو پنجاب سے نکلنے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے۔ لاک ڈاؤن کورونا وبا کو قابو میں کرنے کے لیے لگایا گیا تھا۔ اسموگ ایمرجنسی کے دوران بھی لوگوں کو آلودہ فضا سے دور کرنے کے لیے لاک ڈاؤن ضروری تھا۔ لیکن ہم نے پہلی بار دیکھا کہ ریاست نے صوبے کو مکمل طور پر مفلوج کرنے کے لیے اتنی تیزی سے فیصلے کیے ہوں اور صوبے میں تمام ڈیجیٹل نیٹ ورکنگ کو مفلوج کیا ہو، جو صرف ایک مظاہرے کی کال کی وجہ سے ہوا۔
مظاہرے کو روکنے کے لیے ریاست کو جتنی سخت کوششیں کرنا پڑیں، ان کے پیش نظر یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ آیا اتنی بھاری قیمت چکانے کے بعد کیا اسے ریاست کی کامیابی سمجھنا درست ہوگا؟
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا جبکہ انہیں روکنے کے لیے درکار کوششوں میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا حالانکہ بہت سے حلقوں کے نزدیک وہ فیک نیوز اور غلط معلومات پھیلاتے ہیں لیکن پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کی وجہ سے انہیں ریاست کی جانب سے شدید سختی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مظاہرے اور ان کے خلاف سخت اقدامات، کسی چکر کی طرح یہ بار بار ہورہے ہیں جس سے گمان ہوتا ہے کہ ریاست یہ جنگ ہار رہی ہے۔
اپنی رٹ قائم رکھنے کے لیے ریاست کو پارٹی کے کارکنان اور اس کے رہنماؤں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کرنا پڑا، ناپسندیدہ لوگوں کے ساتھ اتحاد بنانا پڑا، ایگزیکٹو کے اختیارات میں اضافہ کرنا پڑا، عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچانا پڑا، انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سخت ضابطے متعین کرنا پڑے اور طویل مدت کے لیے لوگوں کو حراست میں لینا پڑا۔ یہ سب کرنے کے باوجود بھی انہیں دارالحکومت کی سڑکوں بالخصوص ریڈ زون کے قریب گولیوں اور آنسو گیس سے مظاہرین کا مقابلہ کرنا پڑا۔
اگر اقتدار میں بیٹھے لوگ اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں تو انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح ان کی اقتدار پر گرفت مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہورہی ہے۔ سیریز گیم آف تھرونز کا مشہور زمانہ قول ’پاور از پاور‘ کے برخلاف اقتدار طاقت نہیں ہوتا ہے۔ اس حقیقت کے قطع نظر کہ مظاہرے کا اختتام کیسے ہوا، دراصل یہ احتجاج عوامی طاقت کا مظاہرہ تھا۔
آج کے جدید دور میں اقتدار سب سے پہلے عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کا نام ہے۔ اس کے بعد تمام عناصر کی باری آتی ہے۔ یقینی طور پر اقتدار کا مطلب ریاست کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے حکمرانوں کو محصولات کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جدید دور میں اس طرح کے تحفظ کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اور یہ محصولات اسی معاشی نظام سے حاصل ہوتے ہیں جو ہمارے ملک کو چلاتا ہے۔
عوام کی معاشی بہبود کا حکمرانوں کے اقتدار سے گہرا تعلق ہے۔ ایک ایسا نظام جس سے عوام جدید دور کے تقاضوں اور ضروریات زندگی پوری نہ کرپائے یا جس سے انہیں مواقع اور آزادی میسر نہ ہوں تو ایسا نظام لازمی طور پر اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرے گا۔ اور جس ملک میں اس طرح کا ناقص نظام ہوگا وہاں پر حکمرانی کرنے والا طبقہ غیرملکی سرپرستوں کی مدد تلاش کرے گا جو انہیں ان کے ہی ملک میں حکمرانی کرنے کے لیے رقم فراہم کریں۔
مظاہرین سے علاقہ خالی کروالیا گیا لیکن اس پورے منظرنامے نے پی ٹی آئی قیادت کی کمزوری کو آشکار کیا۔ بہت سے اہم رہنما تو اس مارچ میں موجود ہی نہیں تھے جبکہ جو موجود تھے وہ یا تو جلدی چلے گئے یا اس وقت فرار ہوگئے کہ جب وہ موقع آیا جس کے لیے وہ اپنے کارکنان کو اسلام آباد لے جارہے تھے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آئندہ دنوں میں پارٹی کو اندرونی اختلافات کا سامنا کرنا پڑے گا جہاں وہ مارچ کے تضحیک آمیز اختتام کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔ پارٹی کی مرکزی قیادت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور انہیں تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن ممکنہ طور پر پی ٹی آئی اس بڑے سیاسی دھچکے سے نکلنے میں کامیاب ہوجائے گی جس طرح ماضی میں ہم نے دیکھا۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ لوگوں میں عدم اطمینان مزید جڑیں پکڑ رہا ہے جس کی بنا پر پارٹی کی حمایت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ جب تک یہ عدم اطمینان برقرار رہتا ہے تب تک پی ٹی آئی ہر بڑے دھچکے سے نکلنے میں کامیاب ہوجائے گی اور اگلے راؤنڈ کے لیے تیار ہوگی۔
اگر خیبرپختونخوا میں گورنر راج (جس کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے) لگا کر بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے اور یوں اگر پی ٹی آئی کو شکست دے دی جاتی ہے تب بھی حکومت کو درپیش موجودہ چیلنجز ایک نئے نام یا بینر کے ساتھ اقتدار میں بیٹھے طبقے کو پریشان کریں گے۔ محض فورسز کا استعمال اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کافی نہیں۔
اس سے حکمرانوں کے لیے مشکل صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ کیا آپ ایک ایسے حریف کو کیسے شکست دے پائیں گے جو خود پر ہونے والے ہر وار کے بعد مزید طاقتور ہوکر سامنے آتا ہے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں لیکن اس حوالے سے ایک حقیقت واضح ہے، ریاستی طاقت سے اس چیلنج سے نمٹا نہیں جاسکتا۔
جھوٹ کا مقابلہ سچ جبکہ مایوسی کا مقابلہ صرف امید کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ کوئی ایسی چیزیں نہیں جنہیں احسان کی طرح جھولی میں ڈالا جاسکتا ہو بلکہ اس کے لیے ریاست کو کوششیں کرنا ہوں گی۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔