طلبہ یونینز بحالی سے متعلق درخواست پر اعتراضات ختم، حکومت کو نوٹسز جاری
سپریم کورٹ آف پاکستان نے طلبہ یونینز بحالی سے متعلق درخواست پر اعتراضات ختم کرتے ہوئے حکومت کو نوٹسز جاری کردیے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے طلبہ یونینز کی بحالی سے متعلق درخواست پر اعتراضات کے ساتھ سماعت کی۔
دوران سماعت عدالت نے اسٹوڈنٹس یونین کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کو درخواست پر نمبر لگانے کا حکم دے دیا۔
آئینی بینچ نے اسٹوڈنٹس یونین بحالی کی درخواست پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کردیا، عدالت نے صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔
واضح رہے کہ 1984 میں ڈکٹیٹر ضیاءالحق نے اپنی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف طلبہ کی بغاوت کو کچلنے کی کوشش میں طلبہ یونین پر پابندی لگا دی تھی، اس فیصلے نے پاکستانی سیاسی منظر نامے میں بڑا خلا پیدا کردیا ہے۔
اس سلسلے میں 2023 میں اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے قائد اعظم یونیورسٹی (کیو اے یو) کے وائس چانسلر نیاز احمد اختر کی زیر صدارت سنڈیکیٹ میٹنگ کے دوران کہا تھا کہ جنرل ضیا کے مارشل لا آرڈر کو 1989 میں پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے 1993 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی جانب بھی اشارہ کیا تھا جس میں اگرچہ طلبہ کی سیاست میں مشغولیت کو ناپسند کیا گیا لیکن ساتھ ہی منتخب باڈیز کے وجود کی اجازت دی اور طلبہ کے مسائل کو حل کرنے میں ان کے کردار اور غیر نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کرنے پر ان کی تعریف کی تھی۔