• KHI: Fajr 5:46am Sunrise 7:07am
  • LHR: Fajr 5:26am Sunrise 6:53am
  • ISB: Fajr 5:34am Sunrise 7:03am
  • KHI: Fajr 5:46am Sunrise 7:07am
  • LHR: Fajr 5:26am Sunrise 6:53am
  • ISB: Fajr 5:34am Sunrise 7:03am

وی پی این کے بغیر آئی ٹی انڈسٹری نہیں چل سکتی، چیئرمین پی ٹی اے

شائع November 18, 2024
— حکومت پاکستان، ایکس
— حکومت پاکستان، ایکس

سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی و ٹیلی کام نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کی بندش پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کو مذہب کا تماشا قرار دے دیا۔

چیئرمین پی ٹی اے نے انکشاف کیا کہ وی پی این کے بغیر آئ ٹی انڈسٹری نہیں چل سکتی، اگر انٹرنیٹ ایک دن بند رہے تو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، 10 لاکھ سے زائد فری لانسرز وی پی این استعمال کررہے ہیں، اگر کوئی وی پی این رجسٹرڈ کرائے، تو انٹرنیٹ بند ہونے سے اس کا کاروبار متاثر نہیں ہوگا۔

ڈان نیوز کے مطابق سینیٹ قائمہ کمیٹی آئی ٹی و ٹیلی کام کا اجلاس چیئرپرسن پلوشہ خان کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔

اجلاس میں وزیر مملکت برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام شزا فاطمہ اور وفاقی سیکریٹری آئی ٹی کی عدم حاضری پر چیئرپرسن کمیٹی پلوشہ خان نے اظہار برہمی کرتے ہوئے معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ میں خلل سے لوگ مسائل کا شکار ہیں، انٹرنیٹ سے نوجوان نسل کا روزگار جڑا ہے، جس دن ہم وزارت سے جواب مانگتے ہیں، آگے سے جواب ملتا ہے کہ وزیر صاحبہ مصروف ہیں، ہم اب یہ ساری صورتحال وزیراعظم کے سامنے رکھیں گے۔

اجلاس میں غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کی بندش پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ غیر قانونی وی پی این کی بندش کے لیے پی ٹی اے کو وزارت داخلہ نے خط لکھا، یہ مینڈیٹ تو وزارت آئی ٹی کا ہے، وی پی این والے معاملہ پر چیئرمین پی ٹی اے روشنی ڈالیں، اس سے لوگوں کا کاروبار جڑا ہے۔

قائمہ کمیٹی ارکان نےاسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے وی پی این کو غیر شرعی قرار دینے پر تحفظات کا اظہار کردیا، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ مذہب کا تماشا بنا رہے ہیں، اگر آپ نے وی پی این کو بند کرنا ہے، تو بے شک آکر ان کیمرہ بریفنگ دیں۔

چیئرمین پی ٹی اے نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وی پی این کے استعمال کے بغیر آئ ٹی انڈسٹری نہیں چل سکتی، فری لانسرز کو وی پی اینز کی ضرورت ہوتی ہے، وی پی اینز کی رجسٹریشن کا عمل 2016 سے شروع ہوا تھا۔

انہوں نے کہاکہ اگر کوئی وی پی اینز رجسٹرڈ کرائے، تو انٹرنیٹ بند ہونے سے اس کا کاروبار متاثر نہیں ہوگا، ہر فری لانسر کو وی پی این کی ضرورت بھی نہیں، خفیہ کام کرنے والے اسے استعمال کرتے ہیں،اب تک پی ٹی اے نے ہزاروں وی پی اینز کی رجسٹریشن کر لی ہے۔

چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ وی پی این کی رجسٹریشن کررہے ہیں، اس وقت پاکستان میں ٹاپ کے 27 وی پی اینز ہیں، اس وقت پاکستان میں وی پی این کے ذریعے جو دل کرے دیکھ سکتے ہیں، پی ٹی اے میں علمائے کرام کو بلایا تھا، کہ لوگ فحش مواد دیکھ رہے ہیں،علما سے مدد مانگی تھی کہ جو غیر اخلاقی ویب سائٹس بلاک کرتے ہیں، لوگ اسے زیادہ ہٹ کرتے ہیں، ایکس (سابقہ ٹویٹر) فروری 2024 سے پاکستان میں بلاک ہے۔

اس موقع پر ممبر لیگل وزارت آئی ٹی نے واضح کیا کہ وی پی اینز سوشل میڈیا نہیں لیکن اس کے ذریعے سوشل میڈیا تک رسائی ممکن ہے، وی پی اینز غیر اخلاقی مواد میں نہیں آتا ہے، اگر وی پی اینز کے ذریعے لوگ غیر اخلاقی مواد دیکھ رہے ہیں، تو اسے بلاک ہونا چاہیے، پیکا ایکٹ میں کہیں وی پی این کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے ۔

اجلاس میں سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ ٹک ٹک پر زیادہ گند آرہا ہے، ٹک ٹک میں ایل جی بی ٹی کا مواد آرہا ہے، مینڈیٹ سوشل میڈیا اور غیر اخلاقی مواد کا ہے، اگر اس سے آگے گئے تو وہ غیر قانونی ہے۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ روز سے انٹرنیٹ بند ہے، کیا وہاں سب یہی غلط کام کررہے تھے، سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ پیکا قانون وی پی این بلاک کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دیتا ہے،جس دن وی پی اینز بلاک ہونے ہیں، فری لانسرز نے بہت شور مچانا ہے، وی پی اینز پر اٹارنی جنرل سے لیگل معاملات ڈسکس کریں، پھر ہمیں بتائیں۔

وزارت آئی ٹی حکام نے بتایا کہ اگر انٹرنیٹ ایک دن بند رہے تو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے،10 لاکھ سے زائد فری لانسرز وی پی این استعمال کررہے ہیں، قائمہ کمیٹی نے وی پی اینز کی بندش سے متعلق خط کے معاملے پر آئندہ اجلاس میں وزارت داخلہ سے جواب طلب کر لیا۔

اس موقع پر وزارت آئی ٹی حکام نے کہا کہ وزارت داخلہ نے اسٹیک ہولڈر کے ساتھ میٹنگ میں مشاورت کی تھی،ہم نے کہا تھا اگر وی پی این فورا بند کریں گے تو مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا،2 سے ڈھائی ملین لوگ پاکستان میں فری لانسنگ کررہے ہیں، ایک فری لانسر لگ بھگ 400 ڈالر سالانہ کمارہا ہے اس کی مختلف کیٹیگریز ہیں، 30 نومبر سے پہلے دوبارہ کمیٹی کا اجلاس رکھیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 11 دسمبر 2024
کارٹون : 10 دسمبر 2024