کسی نے نہیں روکا، طے تھا اکثریت نہیں ملی تو میں وزیراعظم نہیں بنوں گا، نواز شریف
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ یہ ہرگز سچ نہیں ہے کہ انہیں وزیراعظم بننے سے روکا گیا، طے کرلیا تھا کہ اکثریت نہیں ملی تو وہ وزیراعظم کے امیدوار نہیں ہوں گے، اس میں کوئی راز نہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نواز شریف نے سیاسی کشیدگی کا ذمے دار عمران خان کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جمہوریت کو سمجھا اور نہ اس کی بہتری کے لیے کچھ کیا، 3 بار کے سابق وزیر اعظم کا خیال ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہیے اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔
صدر مسلم لیگ (ن) میاں محمد نواز شریف نے پاکستان روانگی سے قبل جمعہ کو لندن کے علاقے پارک لین میں واقع فور سیزن ہوٹل میں چائے کی نشست پر ڈان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماضی کے برعکس محتاط رویہ اپنایا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں ایسا کچھ نہیں کہنا چاہتا جو مشکلات یا عدم استحکام کا باعث بنے، یہ آخری چیز ہے جو میں ملک کے لیے کرنا چاہتا ہوں۔‘
’پاک ۔ بھارت تعلقات بہتر ہونے چاہئیں‘
سابق وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورے کے دوران بھارتی کرکٹ ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ آنے کے فیصلے پر بات کی تھی، اس حوالے سوال کیا گیا کہ کیا وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ڈپلومیسی پر یقین رکھتے ہیں؟
نواز شریف نے معاملے کی پیچیدہ نوعیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’پاک ۔ بھارت تعلقات کا موضوع منفرد ہے، کوئی بھی ایماندارانہ جواب کسی بھی ایک فریق کے لیے تکلیف دہ ہوسکتا ہے‘، انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور جارحانہ بیانات سے گریز کرنا ہوگا، خطے کا سینئر ترین سیاستدان ہونے کے ناطے میں کوئی غلط فہمی نہیں چاہتا‘۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دوبارہ کامیابی پر خیر مقدمی پیغام پر بھارتی بے التفاتی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ہم دونوں ممالک پڑوسی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہمارے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جب مسائل کی بات آتی ہے تو ہمیں دوستانہ ماحول میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیے، اگر کسی ملک سے آپ کے تعلقات بہتر ہوں تو اس کے ساتھ مسائل پر بات کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن اگر آپ ایک دوسرے سے دور رہیں تو مسائل پر بات چیت نہیں کرسکتے‘۔
سابق وزیر اعظم نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اسی لیے میں نے کہا تھا کہ ان کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہیے، اگر ایسی صورتحال ہوتی کہ ہمیں کھیلنے کے لیے بھارت جانا ہوتا تو میں چاہتا کہ پاکستان وہاں جانے والی پہلی ٹیم ہو، اس لیے بھارتی ٹیم کو پاکستان جانا چاہیے، اس سے تعلقات بہتر ہوں گے‘۔
تاہم جب انہیں بھارت کی جانب سے طویل عرصے سے پاکستان پر عائد کردہ سرحد پر دہشت گردی سمیت دیگر الزامات کا حوالہ دیا گیا تو انہوں نے سادہ سا جواب دیا کہ ’ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں‘۔
’عمران خان نے میری بات مانی ہوتی تو ہمیں تکالیف نہ اٹھانی پڑتیں‘
پاکستان میں حالیہ برسوں میں جمہوری اقدار کے بتدریج خاتمے بالخصوص سیاسی گرفتاریوں، مظاہرین کو ہراساں کیے جانے اور میڈیا اور انٹرنیٹ کی آزادیاں سلب کرنے سے متعلق سوال کیا گیا تو نواز شریف نے اپنے روایتی حریف کو مورد الزام ٹھہرادیا۔
انہوں نے کہا کہ ’چاہے آپ اس سوال میں عمران خان کو لائیں یا نہ لائیں، وہی اس کی اصل وجہ ہیں، انہیں جمہوریت کو فروغ دینے اور استحکام بخشنے کا سب سے بڑا موقع ملا، جب میں وزیراعظم اور وہ اپوزیشن لیڈر تھے لیکن انہوں نے جمہوریت کو سمجھا نہ اس کے استحکام کے لیے کچھ کیا‘۔
نواز شریف نے کہا کہ ’مجھے نہیں یاد کہ میں نے انہیں ایک یا دو مرتبہ سے زیادہ اسمبلی میں دیکھا ہو، انہوں نے سارا وقت اسمبلی سے باہر دھرنوں میں گزارا، ان کے ارکان نے استعفے دیے، انہوں نے 35 پنکچر کیس کے نام سے ہمارے خلاف مہم شروع کی جسے اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک نے اٹھا کر باہر پھینک دیا، انہوں نے مولانا طاہر القادری سمیت دیگر لوگوں کے ساتھ اتحاد بنایا، کیا یہ جمہوریت تھی؟‘
موجودہ حکومت میں جمہوری آزادیاں سلب کیے جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کی حکومت میں اس سے بھی بدتر صورتحال ہوئی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے اپنا وقت جمہوریت کے استحکام پرصرف کیا، الیکشن جیتنے کے بعد میں عمران خان کے گھر گیا اور انہیں مل بیٹھ کر پاکستانی عوام کی خدمت دعوت دی، انہوں نے مجھے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا لیکن کچھ دن بعد انہوں نے اپنے دھرنے کا اعلان کر دیا‘۔
نواز شریف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کے ذمے دار وہ ہیں، آج ہم مل کر کام کر رہے ہوتے اگر اس وقت انہوں نے میری بات سنی ہوتی جب میں ان کے گھر گیا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’2013 کے انتخابات کے بعد ان کی پارٹی کو عمران خان کی حمایت کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی لیکن انہوں نے ملک اور جمہوریت کی خاطر عمران خان کی جانب امن کا ہاتھ بڑھایا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر انہوں نے منصفانہ اور شفاف طریقے سے انتخابات جیتے ہوتے اور ان نظریات پر کام کیا ہوتا، تو ہم مل کر خدمت کر رہے ہوتے، لیکن انہوں نے میری بات نہیں سنی اور ہمیں تکلیف اٹھانی پڑی‘۔
’اب توجہ پارٹی کو منظم اور چیزوں کو ٹھیک کرنے پر مرکوز ہے‘
جب پوچھا گیا کہ فروری کے انتخابات کے بعد وہ وزیراعظم کیوں نہیں بنے تو نواز شریف نے کہا کہ یہ الیکشن سے پہلے ہی واضح ہوچکا تھا کہ ’اگر مجھے اکثریت نہیں ملے گی تو میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار نہیں بنوں گا، اس میں کوئی راز نہیں ہے‘۔
اس سوال پر کہ ’کیا یہ سچ ہے کہ انہیں عہدہ نہ لینے کا کہا گیا؟ نواز شریف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’کیا آپ واقعی ایسا سمجھتی ہیں؟ یہ سچ نہیں ہے‘۔
اس سوال پر کہ وہ انتخابی نتائج کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں؟ کیا یہ بڑا دھچکا تھا؟ نواز شریف نے ذاتی جذبات کا اظہار کیے بغیر کہا کہ انتخابی نتائج ان کی توقعات سے کم تر تھے۔
موجودہ حالات میں سیاسی سرمایہ کھونے کے بعد اپنے مستقبل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’میں نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل کیا ہے، اب میری توجہ اپنی پارٹی کو منظم اور چیزوں کو ٹھیک کرنے پر مرکوز ہے، میں پارٹی کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف مقامات کا دورہ کروں گا، مجھے امید ہے کہ حالات بہتر ہوں گے اور لوگ دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا دیا ہے‘۔