• KHI: Fajr 5:30am Sunrise 6:49am
  • LHR: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • ISB: Fajr 5:14am Sunrise 6:41am
  • KHI: Fajr 5:30am Sunrise 6:49am
  • LHR: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • ISB: Fajr 5:14am Sunrise 6:41am

حکومت اور آئی ایم ایف توانائی کے شعبے کے مسائل پر الجھن کا شکار

شائع November 15, 2024
فائل فوٹو: ایکس
فائل فوٹو: ایکس

عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) اور حکومت توانائی کے شعبے کے مسائل پر الجھن میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ بعض سرکاری اداروں میں ممکنہ دیوالیہ ہونے کے خدشات نے صرف دو ماہ قبل دستخط کیے گئے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے معیار اور ساخت پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق مشن چیف ناتھن پورٹر کی سربراہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والی آئی ایم ایف ٹیم نے صوبوں کی جانب سے پہلی سہ ماہی میں ٹیکس آمدن کے اہداف پورا کرنے میں ناکامی پر بھی خدشات کا اظہار کیا ہے جس کی بڑی وجہ پنجاب حکومت کے 160 ارب روپے کے اضافی اخراجات ہیں، جس کے نتیجے میں 350 ارب روپے کے اضافی صوبائی بجٹ کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا، حالانکہ باقی 3 صوبوں نے اپنے عہد کو پورا کیا۔

آئی ایم ایف کو آگاہ کیا گیا تھا کہ سندھ اور پنجاب میں بھی جلد زرعی انکم ٹیکس کے حوالے سے قانون سازی متعارف کرادی جائے گی، جمعرات کو پنجاب اسمبلی نے بھی حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی کے بائیکاٹ کے باوجود پنجاب زرعی انکم ٹیکس ترمیمی بل 2024 کی منظوری دے دی۔ اطلاعات کے مطابق دیگر تمام صوبوں کی کابینہ نے اپنے اپنے مگر یکساں قانونی مسودے کی منظوری دے دی ہے۔

دریں اثنا وزیر مملکت برائے ریونیو علی پرویز ملک نے منی بجٹ یا پiٹرولیم لیوی میں اضافے کے حوالے سے میڈیا کی زینت بننے والی بے بنیاد افواہوں کو مسترد کردیا۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پروگرام کے تحت بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اور امید ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں حالیہ بہتری، بہتر ترسیلات زر اور برآمدات کی مدد سے کسی بھی فرق کو پُر کرلیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ دورہ کرنے والے آئی ایم ایف مشن نے ابھی تک اپنی رائے نہیں دی ہے۔

آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات میں شریک ایک عہدیدار نے بتایا کہ اگر آئی ایم ایف قرض پروگرام کی شرائط میں اتنی جلدی ترمیم پر راضی ہو جاتا ہے تو آئی ایم ایف کے عملے اور حکومتی مذاکرات کاروں کی ساکھ خطرے میں پڑ جائے گی لیکن اگر تین سرکاری ادارے ایسا نہیں کرتے ہیں تو وہ دیوالیہ ہوجائیں گے، جس کے باعث بہتر خدمات کی فراہمی اور شعبے کی افادیت کے لیے حکومتی اداروں میں اصلاحات سے متعلق آئی ایم ایف پروگرام کے مقاصد میں سے ایک کلیدی مقصد ناکام ہوجائے گا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پیٹرولیم ڈویژن اور اس کی ماتحت کمپنیوں نے پیٹرولیم اور پاور ڈویژن کے ساتھ آئی ایم ایف سے مشترکہ ملاقات کے دوران وضاحت کی کہ صنعتی کیپٹو پاور پلانٹس ( سی پی پیز) کو گیس کی فراہمی منقطع کرنا پاکستان اسٹیٹ آئل( پی ایس او) اور گیس کمپنیز ’ایس این جی پی ایل‘ اور ’ایس ایس جی سی ایل‘ کو باضابطہ دیوالیہ کرنے کا نسخہ ہے۔

ان حکومتی لسٹڈ کمپنیوں کے سالانہ نقصانات کا تخمینہ 400 ارب روپے سے زائد ہے، اسی لیے ہائبرڈ حل کا قوی امکان موجود ہے جس سے موثر سی پی پیز کو گیس پر کام جاری رکھنے دیا جا سکتا ہے، چاہے وہ درآمد شدہ ری گیسیفائیڈ مائع قدرتی گیس (آر ایل این جی) کی پوری قیمت پر ہی کیوں نہ ہو، اور دیگر غیر موثر سی پی پیز کو بجلی کے گرڈ میں منتقل کر دیا جائے۔

آئی ایم ایف نے سوئی گیس کمپنیوں اور پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے تشویشناک منظر کشی کیے جانے کے بعد تمام مالی، گیس اور آر ایل این جی سپلائی کے اعداد و شمار جمع کر لیے ہیں۔

گیس کی فراہمی میں شدید کمی

دریں اثنا، گیس کمپنیوں نے پیٹرولیم ڈویژن کی خاموش پشت پناہی کے ساتھ خوردہ تقسیم کی سطح بالخصوص گھریلو صارفین کو گیس کی شدید قلت سے دوچار کرنے کا سہارا لیا ہے تاکہ ان کے بے حساب نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے اور پائپ لائن میں گیس پریشر کا بحران پیدا کیا جاسکے، جس کے باعث گھریلو فیلڈ آپریٹرز اپنے ذخائر تباہ ہونے کے خدشات پر اپنے کنوؤں کو بند یا ان کی پیداوار کم کرنے پر مجبور ہیں۔

حکومت نے قطر کے ساتھ اپنے ایل این جی معاہدے میں بھی ڈاؤن فلیکس آپشن کا استعمال کیا ہے جس میں 2026 تک 5 سالانہ کارگوز کو مؤخر کردیا گیا ہے تاہم اب بھی اسے 12 کارگو سرپلس کا سامنا ہے۔

تیل اور گیس کے مقامی کنوؤں پر گیس کی پیداوار میں تقریباً 200 ملین کیوبک فیٹ یومیہ ( ایم ایم سی ایف ڈی) کمی ہوچکی ہے جبکہ سی پی پیز کو فراہمی منقطع ہونے کی صورت میں مزید 250 سے 300 ایم ایم سی ایف ڈی درآمدی آر ایل این جی سرپلس ہوجائے گی۔

توانائی کا شعبہ پہلے ہی درآمدی آر ایل این جی پر انحصار کو مزید 150 ایم ایم سی ایف ڈی تک کم کرچکا ہے، تقریباً 387 کیپٹو پاور پلانٹس ایس این جی پی ایل اور 400 سے زائد ایس ایس جی سی ایل کے نیٹ ورک پر ہیں، یہی وجہ ہے کہ گیس کا کنکشن منقطع ہونے سے ان کمپنیوں کو سالانہ 250 ارب روپے تک نقصان ہوسکتا ہے۔

کے الیکٹرک پہلے ہی اشارہ دیا ہے کہ وہ گیس/ ایل این جی کا استعمال 50 ایم ایم سی ایف ڈی سے 100 ایم ایم سی ایف ڈی تک کم کرسکتا ہے۔

پاور ڈویژن کی قیادت کی موجودگی میں پیٹرولیم ڈویژن کی ٹیم نے شکوہ کیا کہ چند بااثر بیوروکریٹس نے پاور سیکٹر کی بیلنس شیٹس اور سرکلر ڈیٹ کو بہتر دکھانے کےلیے پاور کمپنیوں کے واجبات کو پیٹرولیم سیکٹر پر منتقل کردیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایل این جی کے انفرااسٹرکچر سے متعلق 6 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری اور تقریباً 4 ارب ڈالر کی سالانہ ایل این جی سپلائی چین اس بنیاد پر قائم کی گئی تھی کہ آر ایل این جی کو ’لازمی طور پر چلنے والے پاور پلانٹس‘ میں استعمال کیا جائے گا، لیکن ان وعدوں کو آہستہ آہستہ کم کرکے 66 فیصد ’ٹیک یا پے‘ اور پھر 33 فیصد ’ٹیک یا پے‘ تک لایا گیا اور پھر بالآخر مہنگے پاور پلانٹس کو بند کردیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ توانائی کے شعبے کا سرکلر ڈیٹ بڑے پیمانے پر مستحکم ہوگیا ہے تاہم ممکنہ طور پر گیس کے شعبے کو اس کا سامنا ہے۔

پاکستان اسٹیٹ آئل سب سے اوپر ہے، جو کہ قطر کے ساتھ ’ٹیک یا پے‘ کی بنیاد پر ساورن گارنٹی کا پابند ہے، دونوں گیس کپمنیاں پی ایس او کو ایل این جی آف ٹیک کے لیے ادائیگی سے قاصر ہیں اور ان کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 15 نومبر 2024
کارٹون : 14 نومبر 2024