• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:27pm

توشہ خانہ ون: نیب کی عمران خان، بشریٰ بی بی کی سزا کالعدم، کیس ریمانڈ بیک کرنے کی استدعا

شائع November 14, 2024
— فائل فوٹو:
— فائل فوٹو:

اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں وفاقی تحقیقاتی ادارے (نیب) نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کالعدم کرکے کیس ریمانڈ بیک کرنے کی استدعا کردی۔

توشہ خانہ ون کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز اور رافع مقصود عدالت میں پیش ہوئے۔

عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکیل علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بشریٰ بی بی کی جانب سے استثنیٰ کی درخواست دائر کر رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ دے دیں، اس حوالے سے پریشان نہ ہوں، ہم آرڈر کر دیں گے۔

علی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں بھی استثنیٰ کی درخواست پر اعتراض نہیں کروں گا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا پیپر بُکس بنی ہوئی ہیں؟

پراسیکیوٹر امجد پرویز نے مؤقف اپنایا کہ میں خود توشہ خانہ کیس میں سزا کے طریقہ کار سے متفق نہیں ہوں، میں نے اعتراف کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطل کرنے کا بیان دیا تھا۔

وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ 31 جنوری کو احتساب عدالت نمبر ون نے فیصلہ دیا، دونوں درخواست گزاروں کو 14 سال کی سزا سنائی گئی اور جرمانہ عائد کیا گیا۔

پراسیکیوٹر امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ بطورِ قانون کے طالب علم مجھے نہیں لگتا سزا میرٹ پر دی گئی، میں ابھی بھی اس پر قائم ہوں، 11 گواہان کے بیانات ہی ریکارڈ نہیں کیے گئے۔

نیب نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کالعدم قرار دے کر کیس ریمانڈ بیک کرنے کی استدعا کر دی۔

نیب پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کالعدم قرار دے کر کیس ریمانڈ بیک کر دیا جائے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے امجد پرویز سے مکالمہ کیا کہ ہمیں پہلے علی ظفر صاحب کو سن تو لینے دیں وہ کیا کہتے ہیں، علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایک جیل ٹرائل تھا، 29 جنوری کو جراح کا حق ختم کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ 30 جنوری کو بشریٰ بی بی کا 364 کا بیان رات 11 بجے کے قریب ریکارڈ کیا گیا، اس وقت عمران خان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا کیا گیا۔

وکیل علی ظفر نے مؤقف اپنایا کہ 31 تاریخ کو سوال نامہ بانی پی ٹی آئی کو دیا گیا، میں عدالت کے سامنے ثبوت پیش کروں گا۔

بعد ازاں، عدالت نے توشہ خانہ ون کیس میں عمران خان اور بشری بی بی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 21 نومبر تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ یکم اپریل 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کی سزا معطل کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

31 جنوری کو بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ریفرنس میں 14،14 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو کسی بھی عوامی عہدے کے لیے 10 سال کے لیے نااہل بھی کر دیا تھا۔

احتساب عدالت اسلام آباد نے دونوں ملزمان پر 78 کروڑ 70 روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

بعد ازاں 16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے سائفر، توشہ خانہ اور نکاح کیسز میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا تھا۔

17 فروری کو سابق وزیراعظم و بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی سائفر، توشہ خانہ، نکاح کیسز میں سزا کے خلاف اپیلوں پر ڈائری نمبر الاٹ کردیا گیا تھا۔

26 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ نیب کیس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا تھا۔

29 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ تحائف ریفرنس میں سزا کے خلاف بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کی اپیلوں پر سماعت ملتوی کردی تھی۔

13 مارچ کو ہونے والی سماعت بھی ملتوی کر دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کو اسلام آباد کی عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔

بعد ازاں 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

تاہم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم کو جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔

6 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے خلاف اپیل واپس لینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

سابق حکمراں اتحاد پی ڈی ایم کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2024
کارٹون : 13 نومبر 2024