ریپ اور مردانگی
بچے اتنے چھوٹے تھے کہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے کہ پاکستان میں لڑکی ہونا کتنے خطرے کی بات ہے-
اگر وہ پانچ سالہ بچی اور اس کی تین سالہ کزن تھوڑی سی اور بڑی ہوتی تو شائد ان کو یہ پتہ ہوتا کہ مردوں کے اس ملک میں گھر کے باہر اکیلے کھیلنے میں کتنے خطرات ہیں-
ان کو تو پتہ ہی نہیں تھا- لہذا جب شام ہوئی اورمحلے میں اندھیرا چھانے لگا تو وہ اپنے کھیل میں مگن تھے کہ جب ان کے خاندانوں کو پتہ چلاکہ وہ کہیں گم ہوگئے ہیں تب کافی دیر ہوچکی تھی-
اس پانچ سالہ بچی کے ساتھ اس دوران، میں جب وہ اپنے گھر کے باہرسے اغوا ہوئی اور دوسرے دن اسپتال کے دروازے پر پڑی ہوئی ملی، جو ہوا وہ ایک بھیانک خواب سے بھی زیادہ ڈراؤنا تھا-
بے ہوش اورخون سے لت پت جب وہ بچی اسپتال کی عمارت کے سرسبزلان پرپڑی ہوئی ملی تو اس کا ریپ ہوچکا تھا- معائنے کے بعد ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ کئی مردوں نے ایک گھنٹے سے زیادہ اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے-
اس کا خون اتنا زیادہ بہہ رہا تھا کہ فوراً سرجری ضروری تھی - لیکن اس کے بعد بھی اس کی حالت بہت زیادہ سیریس بتائی گئی تھی- دوسرے دن ٹی وی کی خبروں سے پتہ چلا کہ وہ بے حد ڈری ہوئی اورسراسیمہ تھی ،اتنی زیادہ کہ اس کے گھر والے بھی اس کے نزدیک جاتے تھے تو اسکی چیخیں نہیں تھم رہی تھیں-
اس واقعہ کی ہیبت ناک درندگی نے لوگوں کومشتعل کردیا اورمذمت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا- ایک ایسے ملک میں جہاں ریپ کے واقعات میں اکثر وبیشتراسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو اس سے بھی بہت پہلے کہ لوگوں کی توجہ زیادتی کرنے والے کی طرف جائے- اس بار چونکہ ایک چھوٹی بچی کا معاملہ تھا اسلئے جرم کی بربریت لوگوں کی توجہ کا مرکزبنی-
ظاہر ہے ایک چھوٹی سی بچی پر تو الزام نہیں دھرا جاسکتا تھا- اتنی چھوٹی بچی کس طرح کسی کو ایسا کرنے پرا کسا سکتی ہے- وہ عذر جو لوگ عموماً پیش کرتے ہیں---- خواتین میں شرم وحیا کی کمی، ہر جگہ کھلے بندوں گھومنا پھرنا، مشکوک چال چلن --- وغیرہ کا الزام اس صورت حال میں لگانا ممکن نہیں تھا۔ توپھرجاکر آخر کارلوگوں کو اس گھناونے جرم کی حقیقت کا ادراک ہوا -
یہ سب کچھ دیکھ کرلوگوں کوبہت غصّہ آیا؛ خواتین کے ایک نمائندہ گروپ، جن کا تعلق خیبرپختونخوا کے قانون سازوں سے تھا، نے مطالبہ کیا کہ مجرموں کو پھانسی پرلٹکا دینا چاہئے۔ اسی قسم کے خونی اورانتقامی جذبات کا مظاہرہ باربار ہورہا تھا-
لیکن اس واقعہ کے بعد کی صورت حال نے ایک بار پھرثابت کردیا کہ قانون نافذ کرنے والے اورعدالتی کارروائیوں سے متعلق ادارے جنسی زیادتی کے واقعات کی تحقیقاتی کارروائیوں سے نمٹنے میں مکمل طورپرناکام ہو گئے ہیں- حتیٰ کہ کلوزڈ سرکٹ کیمرے کی ریکارڈنگ کے باوجود بھی مشتبہ افراد کی شناخت نہیں ہوسکی ہے-
پولیس نے جمعہ کے دن چند لوگوں کو پکڑا لیکن سنیچرکو ان سب کو چھوڑ دیا -اگرچہ کہ ڈی این اے کے نمونے پولیس کے پاس موجود ہیں جو انہوں نے تحقیقاتی لیباریٹریوں میں بھجوادئے ہیں لیکن ابھی تک رپورٹیں نہیں ملی ہیں اور نہ ہی مجرموں کی تعداد کے بارے میں کوئی مصدقہ معلومات ہیں-
اس کیس کی تحقیقاتی اور قانونی دلدل کے گرد یہ سوالات بارباراٹھ رہے ہیں کہ یہ کس طرح کا معاشرہ ہے جہاں ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے ہیں اورجوایسے درندوں کی پرورش کرتا ہے جو ان گھناؤنے واقعات کے ذمہ دار ہوتے ہیں ( اورآرام سےراہ فراربھی اختیارکرلیتے ہیں )۔
اس واقعہ سے صرف چند دن پہلے ایک برٹش میڈیکل جرنل " لانسیٹ " نے اپنی اشاعت میں ایک تحقیقاتی مقالہ شایع کیا تھا- (Rape in Asia Pacific Region) ایشیا پیسیفک میں جنسی زیادتی۔ یہ مطالعہ جواقوام متحدہ کے ساتھ مل کرکیا گیا تھا اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں جنسی زیادتی کے مرتکب لوگوں کا کا سروے کیا گیا تھا نہ کہ جن کے ساتھ یہ زیادتی کی گئی تھی-
حالانکہ اس مطالعہ میں خاص طورپر پاکستانی مردوں کا ذکر نہیں تھا لیکن اس کے نتائج پاکستان میں ریپ کی صورت حال کی طرف کچھ اشارے کرتے ہیں
نہ صرف یہ کہ نتائج پریشان کن تھے (جن چھہ ملکوں سے متعلق یہ مطالعہ تھا ان میں تقریباً چارمیں سے ایک مرد نے تسلیم کیا کہ اس نےجنسی تعلقات کے لئے عورت کو مجبورکیا) اوروجوہات کے بارے میں بھی اس کی معلومات اسی طرح کی تھیں-
ریپ کرنے کی وجوہات جو لوگوں نے بتائیں اس میں جنسی برتری، تفریح، کسی کو سزادینا، اور کبھی کبھی بوریت بھی شامل تھی-
تقریباً آدھے لوگوں نے کہا کہ ان کو کسی طرح کے گناہ کا احساس نہیں ہے- آدھے سے زیادہ لوگوں نے پہلی مرتبہ نوجوانی میں انیس سال کی عمرسے پہلے یہ جرم کیا تھا-
اس مطالعہ سے جو نتائج حاصل ہوئے وہ پاکستان کی مخصوص صورت حال کی تشخیص میں مددگارہو سکتے ہیں-
انڈونیشیا اوربنگلہ دیش کے مردوں کی طرح پاکستان کے مرد بھی جنسی برتری کے احساس کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں جو اس مطالعہ کے مطابق جنسی تشدد کی اہم وجہ ہے-
اس بنیادی احساس برتری کے نتیجے میں عورتیں استعمال کرنے کی چیزوں کی حیثیت اختیارکرلیتی ہیں جس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی" نہ " کہنے کا اختیار-
بڑی عمر کی عورتوں کے معاملے میں، ان کے کردار پر شک کرنا اور یہ الزام لگانا کہ وہ اسی بنا پرگھر سے باہر رہتی ہے یا اسی طرح کی دوسری کوئی نہ کوئی وجہ-
بچوں کے معاملے میں اس جنسی حملے کی بدصورتی کو چھپانا مشکل ہے- جیسا کہ یہ مقالہ بتاتا ہے کہ عورتوں کے معاملے میں بغیر کسی گناہ کے احساس کے اورکافی نوجوانی میں شروع ہوتا ہے- اور یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ معاشرہ اس کونظراندازکردیتاہے؛ اصل میں معاشرہ خود الجھن کا شکار ہے کہ کیا ریپ واقعی ایک جرم ہے اور اسے ریپ کے شکار کا ساتھ دینا چاہئے اور مجرم کی مذمت کرنا چاہئے-
لاہور میں جو المیہ ہوا ہے اس میں بچی کی غلطی یہ تھی کہ وہ گھرکے باہر کھیل رہی تھی ایک ایسے معاشرے میں جو بچیوں کو باہر دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہے -
ایسے پاکستان میں جہاں اس قسم کے واقعات عام ہیں پچھلے اورموجودہ قانون ساز افراد ( Women's Protection Act 2006) عورتوں کے تحفظ کا قانون 2006 کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے ہیں- اورزنا آرڈیننس آج تک موجود ہے- ایسے پاکستان میں جہاں اس قسم کے واقعات عام ہیں کونسل آف اسلامک آیڈیالوجی نے ڈی این اے کی جانچ کوجنسی زیادتی کے واقعات میں استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں دی ہے- جب بھی اس ملک کے بارے میں ایک مجموعی تصویر بنتی ہے توفرق صرف اتنا ہوگا کہ اس بچی کے ساتھ اتنی کم عمری میں وہی ہوا جو اس ملک کی بہت ساری عورتوں کی قسمت ہے-
وہ آج کچھ بھی نہیں کہہ سکتی کیونکہ وہ بہت کم عمر ہے- لیکن اگر وہ بڑی ہوتی اور بول سکتی اور اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے کی طرف اشارہ کرکے بتاتی تو اس ملک میں کم ہی لوگ ایسے ہوتے جوشائد اس کا یقین کرتے -
ترجمہ: علی مظفر جعفری
تبصرے (2) بند ہیں