• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کہانی ایکسٹینشن کی۔۔۔

شائع November 7, 2024

ایک اور معمولی رات تھی کہ جب ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں اپوزیشن رہنماؤں کے احتجاج کے درمیان حکومت پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے قوانین منظور کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

قانون سازی کے اتنے اہم اوراق پر بھی ایوان میں بحث نہیں کی گئی جوکہ پورے ملک کے سیاسی منظرنامے پر اثرانداز ہوں گے۔ اسے موجودہ حکومت کی جانب سے ایک اور دھوکے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جو بظاہر اس فن میں مہارت حاصل کرچکی ہے۔

سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کی عجلت اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں تبدیلیاں جن سے عدالت عظمیٰ پر ایگزیکٹو کی گرفت مضبوط ہوگی، ان کے علاوہ بھی پارلیمنٹ نے متعدد متنازع بلز کو منظور کیا۔

چند دن پہلے ایک ایسے ہی بل میں سیکیورٹی فورسز کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ اطلاعات سامنے آئیں کہ اس سے قبل 26ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ابتدائی مسودے میں ملٹری سے متعلق متنازع شق شامل تھی جسے نئے مسودے میں حذف کردیا گیا تھا۔

اسی اثنا میں یہ کہا جارہا ہے کہ فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال کرنے کے پارلیمانی فیصلے کا تعلق فوج کے مفادات سے زیادہ ملکی سیاست سے ہے۔

پارلیمنٹ کے اس اقدام کے ممکنہ طور پر جمہوری عمل پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے اور ملک میں شہریوں کے اختیارات پر مزید سمجھوتہ کیا جائے گا کیونکہ اس بل سے اقتدار کے ڈھانچے پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مزید مضبوط ہوگی۔ توسیع کے معاملے کو اس سے الگ کرکے نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ کوئی بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ حکمران اتحاد کے لیے ایسی آئینی تبدیلیاں لانے کی اپنی وجوہات ہیں۔

ماضی میں دیکھیں تو ہم نے ایک سے زائد آرمی چیف کو اپنے آمرانہ دور میں خود کو توسیع دیتے دیکھا، حتیٰ کہ جمہوری حکومتوں نے بھی مختلف وجوہات کی بنا پر ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی۔ لیکن حالیہ تبدیلیوں سے بری کے علاوہ دیگر افواج کے سربراہان کو بھی فائدہ ہوگا۔ موجودہ فضائیہ کے سربراہ کو 2023ء میں پہلے ہی ایک سال کی توسیع دی جاچکی تھی۔ ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ سنیارٹی لسٹ میں موجود نام، توسیع کے اس قانون کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے نئے قوانین کے حق میں ووٹ نہیں دیا لیکن بہت سے پارٹی رہنما توسیع کے قانون پر عوامی سطع پر واضح مؤقف اختیار کرنے میں ہچکچاتے رہے۔ درحقیقت ماضی میں بھی مختلف نظریات رکھنے والے تمام سیاسی رہنماؤں نے اپنے اختلافات بھلا کر مدت ملازمت میں توسیع دینے پر اتفاق کیا۔

اس کی ایک مثال 2019ء میں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت کے دوران سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع تھی جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے سے اتفاق کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی جو جنرل قمر جاوید باجوہ کو عمران خان کو اقتدار میں لانے کے ذمہ دار کے طور پر دیکھتی تھیں، انہوں نے بھی پارلیمان میں ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ یہی فیصلہ بعد میں پی ٹی آئی کے حق میں غلط ثابت ہوا۔ تاہم حیران کُن تھا کہ سیاسی رہنما جنرل باجوہ کو دوسری بار توسیع دینے کے لیے رضامند تھے۔

جب غیرسیاسی قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے گا تو اس سے جمہوری عمل مزید کمزور ہونے پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس طرح سیاسی اقتدار کے کھیل میں ثالث کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کا کردار مستحکم ہوتا ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ متنازع قانونی حیثیت رکھنے والا حکمران اتحاد اپنی بقا کے لیے کافی حد تک اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کررہا ہے اور بہت سے حلقوں کے نزدیک توسیع کا معاملہ دونوں کے درمیان مفاہمت کا نتیجہ ہے۔

اس ترمیم کی ٹائمنگ بھی دلچسپ ہے کیونکہ عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے والی ترمیم منظور ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔ یہ عکاسی کرتا ہے کہ ہمارا ملکی طاقت کا ڈھانچہ کس قدر غیرسیاسی قوتوں کے زیرِ سایہ آچکا ہے اور جمہوری آزادی کے لیے جگہ کتنی تنگ ہوتی جارہی ہے۔

حکومت سیاسی مخالفین کی آواز دبانے کے لیے طاقت کے استعمال میں اضافہ کررہی ہے۔ اس کی مثال ایڈووکیٹ انتظار حسین پنجوتھا کا اغوا تھا جو حالیہ دنوں بازیاب ہوئے۔ گمان یہ ہوتا ہے کہ مخالفین کو دبانا جیسے آج کل ایک عام روایت بن چکی ہے جہاں حکومت اپوزیشن کو مکمل نظرانداز کرتے ہوئے کسی پارلیمانی بحث کے بغیر ہی متنازع قوانین منظور کررہی ہے۔

رواں ہفتے پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا اس نے ہماری سیاسی قیادت کی منافقت کو مزید آشکار کیا جو عوام کی بالادستی اور جمہوری اقدار کی پاس داری کے دعوے کرتے ہیں۔ آج کے دور میں ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ہائبرڈ طرزِ حکمرانی سے زیادہ ہے جس سے سویلین شعبہ جات میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کرادر بڑھ رہا ہے۔

ہم ایک کمزور عوامی سیٹ اپ دیکھ رہے ہیں جو اقتدار کے کھیل میں دیگر کھلاڑیوں کو شمولیت کی اجازت دے رہا ہے۔ یہ بھی بحث کی جاسکتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے بغیر حکومت کبھی بھی پارلیمنٹ سے 26ویں ترمیم منظور کروانے میں کامیاب نہیں ہوپاتی بالخصوص ایسی ترمیم جس میں اعلیٰ عدلیہ کو لگام دینے کی کوشش کی گئی۔

چند مبصرین کے خیال میں ایک ایسے آئینی بینچ کی تشکیل جس میں اراکین سے من چاہا فیصلہ کروا کر حکومت، سپریم کورٹ کے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلے کو تبدیل کرسکتی ہے۔ یوں مستقبل میں مزید قانونی ترامیم کے لیے حکمران اتحاد کی ایوان میں دو تہائی اکثریت بحال ہوجائے گی۔ آئین کی بنیادوں کو تباہ کرنے سے غیرجمہوری قوتیں مضبوط ہوں گی جوکہ پہلے ہی ہورہی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جو آئینی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے میثاقِ جمہوریت کا ذکر کرتے نہیں تھک رہی تھیں جبکہ وہ اسی میثاق کے تحت سویلین بالادستی کو برقرار رکھنے اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے اپنے وعدے کو بُھلا بیٹھی ہیں کیونکہ ان کے حالیہ اقدامات میثاقِ جمہوریت کے متصادم تھے۔

یہ افسوس ناک ہے کہ اتنے سال حکومت اور اپوزیشن میں گزارنے کے باوجود یہ جماعتیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنے میں ناکام رہی ہیں اور وہ بار بار اپنی وہی پرانی غلطیاں دہراتے ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی مصالحت اور مفادات غالب آچکے ہیں لیکن وہ وقت دور نہیں کہ وہ جب ان کے یہی فیصلے انہیں نقصان پہنچائیں گے۔

ایک اہم سوال جو بہت سے لوگوں کی جانب سے پوچھا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے تمام تر تضادات کے ساتھ، موجودہ نظام آخر کب تک چل سکے گا؟


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024