• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm

چیئرمین سینیٹ نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے اپوزیشن سے نام مانگ لیے

شائع October 29, 2024
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے 26ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تشکیل کے لیے اپوزیشن سے نام مانگ لیے۔

سینیٹ کااجلاس پریذائڈنگ افسر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت شروع ہوا، ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹرز کی عدم حاضری کا سلسلہ جاری رہا جہاں کارروائی کے آغاز میں صرف 8 سینیٹرز موجود تھے۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ کورم کو مکمل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، جب آئینی ترمیم ہوتی ہے تو سارے سینیٹرز یہاں پہنچا دیے جاتے ہیں، یہ ایوان نامکمل ہے اور اس کے فیصلوں پر بڑا سوالیہ نشان ہوگا۔

اجلاس کے دوران عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹرز نے ایک دوسرے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

سینیٹر ایمل ولی خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے گزشتہ روز قائد حزب اختلاف کی اجلاس میں عدم شرکت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی والے کھل کر اسرائیل کی مخالفت کریں گے، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان، بھارت اور چین کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔

سینیٹر ایمل ولی نے کہا کہ پی ٹی آئی والوں نے سینیٹر زرقا تیمور اور سینیٹر فیصل الرحمٰن پر الزامات لگائے ہیں، سینیٹر فیصل الرحمٰن اور سینیٹر زرقا اس روز غیر حاضر تھے، اگر یہ معیار ہے کہ کوئی غیر حاضر تھا تو سب کو معلوم ہے کون کون غیر حاضر تھا، سینیٹر شبلی فراز بھی اس روز غیر حاضر تھے، میں سینیٹر فیصل الرحمٰن اور زرقا تیمور کے خلاف پروپیگنڈے کی مذمت کرتا ہوں۔

سینیٹر شبلی فراز اور پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے ایمل ولی خان کی تقریر کے دوران احتجاج کیا، اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کو ایوان میں بات نہیں کرنے دی جاتی، یہاں ہماری حکومت کے خلاف باتیں کی گئی ہیں، یہ ایوان نا مکمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹر ایمل ولی خان کے آبا و اجداد کے بارے میں ہمیشہ اچھی بات کی ہے، اگر کوئی ان کی فیملی کے بارے میں غلط بات کرے گا تو میں اس کی مذمّت کرتا ہوں، خیبرپختونخوا کے ایک لیڈر نے آج اپنی تقریر میں بہت ساری باتیں کی ہیں۔

اس دوران کورم نامکمل ہونے پر سینیٹ اجلاس کو 30 منٹ کے لیے ملتوی کیا گیا، وقفے کے بعد سینیٹ اجلاس چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت شروع ہوا۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے جوڈیشل کمیشن کے لیے ممبران کے حوالے سے خط لکھا ہے، جوڈیشل کمیشن کے لیے نام جلد از جلد دے دیں۔

اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے جواب دیا کہ اس حوالے سے مشاورت ہو رہی ہے، سینیٹ کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کا ہاؤس بھی نامکمل ہے، اپوزیشن اور حکومت مل کر ایک قرارداد منظور کرائیں کہ ہاؤس مکمل ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ٹریک ریکارڈ دیکھ لیں، خیبر پختونخوا میں الیکشن کروائے جائیں، ایوان بالا کا مکمل ہونا ضروری ہے، سپریم کورٹ نے بھی ایک فیصلہ دیا ہوا ہے لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوا ہے، اس ملک میں نہ آئین کی کوئی قدر ہے، نہ ہی سپریم کورٹ کی۔

شبلی فراز نے کہا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف فیصلے دیے، بظاہر لگتا ہے بانی پی ٹی آئی اور پاکستان تحریک انصاف کے بغیر سیاسی سرگرمی ممکن ہی نہیں ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اگر زبردستی سے آپ کسی کی وفاداری خرید کر آئین سازی کرتے ہیں تو یہ آپ کا ظرف ہے، ہمارے اقلیتی رکن کو ایک سینیٹر نے فون کیا کہ اتنے پیسہ لیں اور ووٹ دیں، اس پر اقلیتی سینیٹر نے کہا کہ ہمارا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا، جس پر ہمارے سر شرم سے جھک گئے۔

سینیٹر ناصر بٹ نے سوال کیا کہ اس سینیٹر کا نام بتائیں، شبلی فراز نے جواب دیا کہ میں آپ سے مخاطب نہیں ہوں، میں چیئرمین سینیٹ سے بات کر رہا ہوں۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اس ترمیم کی وجہ سے عالمی سطح پر مذمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ابھی 26ویں ترمیم ہضم نہیں ہوئی، اور 27ویں ترمیم کی بات ہو رہی ہے، ہم قانونی و سیاسی جنگ لڑتے رہیں گے، بانی پی ٹی آئی نے کوئی سیاسی معاہدہ نہیں کیا ہے۔

ایمل ولی خان نے کہا کہ ایوان میں قرارداد پیش کی جائے کہ 2024 کے پی الیکشن کی فنگر پرنٹ تصدیق کرائی جائے، اگر 50 فیصد سے زیادہ تصدیق درست ہوئی تو میں خاموش ہو جاؤں گا۔

سینیٹ اجلاس میں سینیٹر کامل علی آغا نے وقفہ سوالات مؤخر کرنے کی تحریک پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی 26ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کے لیے حکومت اور اپوزیشن سے نام طلب کیے تھے، سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے لیے 13 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے گا جس کے سربراہ چیف جسٹس ہوں گے۔

آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے ایاز صادق نے حکومت اور اپوزیشن سے نام طلب کیے ہیں۔

26ویں آئینی ترمیم کے مطابق 13 رکنی جوڈیشل کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان ہوں گے، جبکہ عدالت عظمیٰ کے 3 سینیئر ترین ججز بھی کمیشن کا حصہ ہوں گے اور آئینی بینچ کا سینیر ترین جج بھی جوڈیشل کمیشن کا رکن ہوگا۔

کمیشن کے ارکان میں وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور کم از کم 15 سالہ تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ بھی شامل ہوگا۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 2 حکومتی اور 2 اپوزیشن ارکان بھی رکن ہوں گے، جبکہ سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ الیکشن لڑنے کے لیے اہل خاتون یا غیر مسلم کو بھی 2 سال کے لیے جوڈیشل کمیشن کاحصہ بنایا جائے گا، اس رکن کا تقرر چیئرمین سینیٹ کریں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔

26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھے تاہم 22 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کے لیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی اکثریت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو اگلا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا تھا۔

26ویں آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ ترامیم آرٹیکل 175-اے میں کی گئی ہیں، جو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری کے عمل سے متعلق ہے۔

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان دراصل سپریم کورٹ ہائی کورٹ، یا فیڈرل شریعت کورٹ کے ججوں کی ہر اسامی کے لیے اپنی نام زدگیوں کو 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتا تھا جو یہ نام وزیر اعظم کو اور پھر وہ صدر کو ارسال کرتے تھے تاہم ترمیم کے بعد کمیشن اب اپنی نامزدگیوں کو براہ راست وزیر اعظم کو بھیجے گا جو انہیں تقرری کے لیے صدر کو بھیجیں گے۔

ترمیم کے بعد خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی سے 8 اور سینیٹ کے 4 ارکان شامل ہوں گے، سیاسی جماعتوں کو ارکان اسمبلی کی بنیاد پر کمیٹی میں متناسب نمائندگی حاصل ہو گی، جنہیں ان کے متعلقہ پارلیمانی لیڈر نامزد کریں گے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024