طالبہ سے مبینہ زیادتی کے معاملے پر راولپنڈی میں احتجاج، 385 مظاہرین گرفتار
لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے معاملے پر راولپنڈی میں احتجاج کرنے والے 385 مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ پولیس نے منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا۔
ڈان نیوز کے مطابق پولیس کی جانب سے مختلف تھانوں میں مظاہرین کے خلاف 8 مقدمات درج کیے گئے ہیں، مقدمات 387 نامزد افراد اور 2 ہزار 425 نامعلوم افراد کے خلاف درج کیے گئے ہیں جبکہ پولیس نے احتجاج کرنے والے 385 مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
مظاہرین کے خلاف مقدمات تھانہ نیوٹاون، ایئر پورٹ، مورگاہ، گوجر خان، صدر واہ اور نصیر آباد میں درج کئے گئے ہیں، مقدمے 16 ای پی او، توڑ پھوڑ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر درج کیے گئے ہیں، گرفتار طلبہ کو کل علاقہ مجسٹریٹ کی عدالتوں میں پیش کیا جائے گا۔
آج راولپنڈی کے مختلف کالجز کیمپس کے باہر طلبہ نے احتجاج کیا تھا، کمرشل مارکیٹ، سکستھ روڈ، مورگاہ اور پشاور کیمپس کے باہر یونیفارم پہنے طلبہ نے کیمپسز پر پتھراؤ کیا اور ان کی جانب سے نعرے بازی کی گئی۔
پشاور روڈ کیمپس پر طلبہ نے گیٹ اور شیشے توڑ دیئے اور مورگاہ کیمپس کے باہر طلبہ نے پتھراؤ کیا، جبکہ احتجاج کے باعث ایوب پارک چوک مکمل بلاک ہو گیا اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔
حالات کشیدہ ہونے پر پولیس کی بھاری نفری موقع پر طلب کر لی گئی، مورگاہ پر بھی پولیس اور مظاہرین میں تصادم ہو گیا۔
راولپنڈی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) آپریشن حافظ کامران اصغر نے ڈان کو بتایا کہ پُرتشدد احتجاج کرنے والے تقریباً 150 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، مزید کہنا تھا کہ صورتحال اب مکمل طور پر قابو میں ہے۔
ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ تمام زاویوں سے احتجاج کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، مزید کہا کہ شہر میں مختلف کالجز کے باہر سڑکوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تمام بلاک سڑکوں کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
ایس ایس پی کا کہنا تھا ہم طلبہ کو گرفتار نہیں کرنا چاہتے تھے، احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن احتجاج کی آڑ پر اگر کوئی بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے گا، اور توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ کرے گا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
بعد ازاں، ترجمان پولیس انسپکٹر سجاد الحسن نے بتایا کہ ویڈیوز سے شناخت کے بعد 100 مزید افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جس کے بعد کل تعداد 250 ہو گئی ہے۔
ترجمان پولیس کا کہنا تھا کہ گرفتار افراد میں غیر طلبہ عناصر بھی شامل ہیں، ملزمان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق غیر طلبہ عناصر نے مذموم مقاصد کے لیے احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ کی، مزید کہنا تھا کہ شہر میں صورتحال معمول کے مطابق ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کو پروپیگنڈے قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بچی زیادتی نہیں، گھٹیا سازش کا شکار بنی، بار بار کی احتجاج کی کال ناکام ہونے کےبعد انتہائی گھٹیا اور خطرناک منصوبہ بنایاگیا، فتنہ فساد کی جڑ خیبرپختونخوا حکومت ہے۔
مریم نواز نے جعلی خبر پھیلانے میں ملوث عناصر کےخلاف بھرپور کریک ڈاؤن کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ سازش کامیاب ہوجاتی تو کئی جانیں جاسکتی تھیں، سازش کے تمام تانے بانے کھل کر میرے سامنے آگئے ہیں، سوشل میڈیا پر جھوٹ کی فیکٹریوں کو اب بند ہونا چاہیے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا تھا کہ 10 اکتوبر کو ایک بچی کا نام لیا گیا کہ وہ ریپ کا شکار ہوئی ہے لیکن وہ بچی 2 اکتوبر سے اسپتال میں داخل ہے، وہ بچی کہیں گری اور بری طرح زخمی ہونے کے بعد آئی سی یو میں داخل ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے مزید کہا تھا کہ ’میری اس بچی کی والدہ سے رات بات ہوئی تو وہ شدید صدمے کی حالت میں تھیں، ان کی اپنی کوئی سرجری ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے، میری 5 بچیاں ہیں ان کی شادیاں بھی ہوں گی لہٰذا اس سازش کے کرداروں کو بے نقاب کرنا اور کیفر کردار تک پہچانا آپ کی ذمے داری ہے، اس والدہ کی درخواست پر آپ آج مجھے میڈیا پر دیکھ رہے ہیں۔‘
بعد ازاں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا تھا کہ لاہور میں طلبہ کو مظاہروں پر اکسانے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری اپنے ایک بیان میں مریم نواز نے کہا تھا کہ سازش میں شامل کسی بھی شخص کو نہیں بخشا جائے گا، جھوٹے پروپیگنڈے سے معصوم لڑکی اور اہل خانہ متاثر ہوئے ہیں۔
واقعہ کا پس منظر
واضح رہے کہ 14 اکتوبر کو لاہور کے نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی جس کے طلبہ و طالبات مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مذکورہ کالج میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا، اس دوران پولیس سے جھڑپوں میں 27 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے سراپا احتجاج طلبہ کی نشاندہی پر نجی کالج کے ایک سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا تھا، تاہم مبینہ طور پر متاثرہ طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے درخواست جمع نہ کرانے کے باعث تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی ہے۔
پیر کی شپ اے ایس پی شہر بانو نقوی نے متاثرہ طالبہ کے مبینہ والد اور چچا جو ماسک سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھے، کے ساتھ ایک وڈیو بیان جاری کیا تھا۔
اے ایس پی کے ساتھ کھڑے ایک شخص نے کہا کہ لاہور کے نجی کالج میں پیش آئے واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، جن میں ان کی بچی کا نام لیا جارہا ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہماری بچی گھر کی سیڑھیوں سے گری، جس سے اس کی کمر پر چوٹ آئی ہے اور اسے آئی سی یو لے جایا گیا۔