• KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:15am Sunrise 6:40am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:50am
  • KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:15am Sunrise 6:40am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:50am

غزہ سمیت عالمی تنازعات کو دیکھتے ہوئے نئے ورلڈ آرڈر کی گونج سنائی دے رہی ہے، وزیر اعظم

شائع September 27, 2024
وزیر اعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس سے خطاب کررہے تھے— فوٹو: رائٹرز
وزیر اعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس سے خطاب کررہے تھے— فوٹو: رائٹرز

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی اور قتل عام سمیت دنیا کے نظام کو درپیش سنگین چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ہمیں نئے ورلڈ آرڈر گونج سنائی دے رہی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے دوسری بار خطاب کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے جہاں پاکستان پاکستان یو این اسمبلی کا متحرک رکن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں کہا تھا کہ ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ کھڑے ہیں اور دنیا کی امن اور خوشحالی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے اور آج پاکستان بابائے قوم کے اس عزم کے ساتھ کھڑا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج دنیا کے نظام کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں، غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی اور قتل عام، یوکرین میں خطرناک تنازع، افریقہ اور ایشیا بھر میں تباہ کن تباہ کن تنازعات، دنیا بھر میں بڑھتا ہوا تناؤ، دہشت گردی میں اضافہ، بڑھتی ہوئی غربت، ماحولیاتی تبدیلی کے ہمالیا نما چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ہمیں نئے ورلڈ آرڈر کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

غزہ میں بچوں کو ملبے تلے دفن کیا جا رہا ہے، کیا ہم خاموش رہیں گے، شہباز شریف

شہباز شریف نے کہا کہ ان چیلنجز کو دیکھتے ہوئے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فیوچر سمٹ بلانے کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں مستقبل کے معاہدوں کے ترقی، امن و سیکیورٹی، ٹیکنالوجی اور عالمی گورننس کے حوالے سے 54 اقدامات کو اپنانے کا معاہدہ طے پانا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج میں آپ کے سامنے غزہ کے عوام کی حالت زار پر پاکستان کے عوام کے درد اور تکلیف کو بیان کرنے کے لیے یہاں موجود ہوں، اس مقدس سرزمین پر ہونے والے ظلم پر ہمارے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں، یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس نے انسانیت کے ضمیر اور اس ادارے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب غزہ میں بچے اپنے گھر کے ملبے تلے دفن کیے جا رہے ہیں تو ہم تب بھی خاموش رہیں گے، کیا ہم ان ماؤں کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند کر لیں گے جو اپنی جھولیوں میں اپنے بچوں کے بے جان لاشے لیے بیٹھی ہیں، یہ کوئی تنازع نہیں بلکہ فلسطین کے معصوم عوام کو منظم طریقے سے ذبح کیا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ غزہ کے معصوم بچوں کا خون صرف وہاں ظلم کرنے والوں کے ہاتھوں پر نہیں بلکہ ان کے ہاتھوں پر بھی ہے جنہوں نے تنازع کو طول دیا، ان لوگوں کی درپیش مشکلات کو نظرانداز کر کے ہم انسانیت کا قتل کررہے ہیں، صرف مذمت کافی نہیں بلکہ ہمیں فوری اقدامات کرنا ہوں اور اس قتل عام کو فوری روکنے کا مطالبہ کرنا ہو گا۔

فلسطین کو اقوام متحدہ کا مستقل رکن تسلیم کیا جانا چاہیے، وزیر اعظم

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطینیوں کا خون اور قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی، ہمیں ان کو درپیش مصائب کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے اور ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، ہمیں دو ریاستی حل کے ذریعے پائیدار امن کے قیام کی کوششیں کرنی چاہئیں اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک ایسی قابل عمل، محفوظ اور خودمختار ریاست فلسطین قائم کرنی چاہیے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو اور ان اہداف کے حصول کے لیے فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔

اس مرحلے پر انہوں نے لبنان پر اسرائیلی بمباری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت 500 سے زائد افراد شہید ہوئے، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کرنے سے اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس نے پورے مشرق وسطیٰ کے خطے کو جنگ میں جھونکنے کے خطرے سے دوچار کردیا ہے جس کے نتائج انتہائی ہولناک ہوں گے کہ جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

’بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرررہا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام بھی ایک صدی سے اپنی آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد کررہے ہیں، امن کی جانب پیش قدمی کے بجائے بھارت اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جموں و کشمیر کے حوالے سے منظور شدہ قراردودوں کی پاسداری کے وعدوں سے پھر گیا ہے، یہ قراردادیں جموں اور کشمیر کے لوگوں کو حق خود ارادیت کا استعمال کرنے کے قابل بنانے کے لیے رائے شماری کا حکم دیتی ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ 5 اگست 2019 سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر نے یکطرفہ بنیادوں پر غیرقانونی اقدامات کرنے کا آغاز کیا ہے جسے ان کے لیڈرز جموں و کشمیر کا حتمی حل تصور کرتے ہیں، دن رات 9لاکھ بھارتی فوجی مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو طویل کرفیو، ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں کشمیری نوجوانوں کے اغوا جیسے انسانیت سوز اقدامات کے ذریعے دہشت زدہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی کے ساتھ ہی ایک کلاسک نوآبادیاتی سیکولر منصوبے کے تحت کشمیری سرزمینوں اور جائیدادوں کو غصب کررہا ہے اور جموں و کشمیر میں باہر سے آنے والوں کو آباد کررہا ہے تاکہ مکروہ عزائم کے ذریعے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر سکے، تمام طرح کی طاقت کے ذریعے اس طرح کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں لیکن ایسے حربے ہمیشہ ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں اور اللہ نے چاہا تو یہ جموں و کشمیر میں بھی ناکامی سے دوچار ہوں گے۔

’بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے‘

انہوں نے کہا کہ بھارتی قیادت نے کئی مواقع پر لائن آف کنٹرول عبور کر کے آزاد کشمیر پر قبضے کی دھمکیاں دی ہیں لیکن میں دوٹوک انداز میں کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت اور مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پائیدار امن کے قیام کے لیے بھارت اپنے ان یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات کو واپس لے جو اس نے 5 اگست 2019 کے بعد سے کیے ہیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر تنازع کے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کے لیے پرامن حل کے لیے مذاکرات کی میز پر آئے۔

وزیر اعظم نے ماحولیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور تباہیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ دو سال قبل تباہ کن سیلاب نے میرے ملک کو ہلاک کر رکھ دیا تھا جس سے ہمیں 30ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا، اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ ہر موسم گرما میں درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا اور ماحولیاتی تبدیلی کے نئے اثرات ہوں گے۔

’پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کی بھاری قیمت ادا کی‘

ان کا کہنا تھا کہ عالمی کاربن اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ہماری کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود ہم نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے، یہ بہت بڑی ناانصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے 100 سے زائد ترقی پذیر ممالک قرض اور لیکویڈیٹی کے بحران میں جکڑے ہوئے ہیں جسے میں موت کا پھندہ قرار دیتا ہوں اور اس صورتحال میں پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے لہٰذا عالمی تجارت اور ٹیکنالوجی رجیم میں اصلاحات کر کے انہیں اس طرح مرتب کیا جائے کہ جس سے ڈیولپمنٹ اور گلوبل ایکویٹی کو فروغ مل سکے۔

شہباز شریف نے کہا کہ رواں سال مارچ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اپنے ملک کے 24 کروڑ عوام کی ترقی اور خوشحالی میرا واحد مقصد رہا ہے، ہم نے کئی مشکل اور اہم فیصلے کیے جس نے ہماری معیشت کو تباہی سے بچایا، میکرو اکنامک استحکام کو بحال کیا، خساروں کو کم کیا اور ہمارے ذخائر کو مستحکم کیا جس سے مہنگائی کی شرح 10فیصد سے کم کی سطح پر آ گئی ہے اور معاشی ترقی امکانات پھر سے روشن ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی اور وسطی ایشیا اور مشرق وسطی کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ہم نے جیواکنامک اور علاقائی روابط کو ترجیح دی ہے تاکہ ہمارے عوام کی ہر حال میں فتح ہو سکے، پاک چین اقتصادی راہدری کا دوسرا مرحلہ کا کامیابی سے آغاز کردیا گیا ہے جس کے تحت ہم نے لچکدار انفرااسٹرکچر، قابل تجدید توانائی، معدنیات، پائیدار زراعت اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی کوشش کررہے ہیں جس سے ہمارے ملک میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔

’افغانستان میں موجود داعش،القاعدہ اورفتنہ الخوارج امن کے لیے خطرہ ہیں‘

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے بے مثال کردار اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان نے دو دہائیوں تک دہشت گردی کا ڈٹ کر کامیابی سے مقابلہ کیا، ہم نے پاکستان میں دہشت گرد گروپوں کو شکست دی، ہم نے اس کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے اور ہمارے 80 ہزار سے زائد بہادر جوان اور شہری شہید ہوئے جس میں اسکول جانے والے معصوم بچے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ سے ہماری معیشت کو 150ارب ڈالر کا نقصان پہنچا لیکن بدقسمتی سے آج ہمیں ایک بار پھر بیرونی طور پر اسپانسر شدہ اور مالی معاونت کی حامل دہشت گردی بالخصوص تحریک طالبان پاکستان کے فتنہ الخوارج کی دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا ہے لیکن ہم اپنی مشترکہ کوششوں کے ذریعے اس خطرے کے خاتمے کے لیے بھی پرعزم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم عالمی برداری کے ساتھ مل کر ہر طرح کی دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے اور انسداد دہشت گردی کے عالمی خاکے میں اصلاحات لائیں گے۔

شہباز شریف نے کہا کہ افغانستان میں موجود داعش،القاعدہ اورفتنہ الخوارج امن کے لیے خطرہ ہیں اور افغان عبوری حکومت عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کرے۔

دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کے مسلسل واقعات، مساجد پر حملوں، مسلمانوں کے حوالے سے منفی تصورات کی ترویج اور ان کے خلاف عدم مساوات اور تشدد کے واقعات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا کا سب سے خطرناک مظہر بھارت میں ہندو بالادستی کا حامل ایجنڈا ہے، یہ جارحانہ انداز میں 20 کروڑ مسلمانوں کو محکوم بنانے اور بھارت میں موجود اسلامی ورثوں کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور اسلامی تعاون تنظیم اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان یوکرین میں جاری افسوسناک تنازع کے بھی فوری خاتمے اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق اس کے پرامن حل کا خواہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افریقی ممالک کے ساتھ یکجہتی، دوستی اور تعاون کی طویل اور قابل فخر تاریخ ہے اور ہم دہشت گردی کے انسداد اور علاقائی تنازعات کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشن کے ذریعے ان کے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے۔

نیتن یاہو کے خطاب کے دوران پاکستان کا احتجاجاً واک آؤٹ

وزیر اعظم شہباز شریف کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو خطاب کے لیے آئے اور ان کا خطاب شروع ہوتے ہی پاکستان نے غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف تقریر سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔

شہباز شریف اپنی تقریر ختم کر کے نشست پر پہنچے تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو خطاب کے لیے پوڈیم پر پہنچے لیکن اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف سمیت پاکستانی وفد نے احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔

اس کے علاوہ فلسطین کے حامی دیگر کئی ممالک کے وفود نے بھی نیتن یاہو کی تقریر سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا اور باہر چلے گئے جبکہ فلسطین کا وفد بھی اپنی نشست پر اس دوران موجود نہیں تھا۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024