• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے خلاف ایک اور درخواست سپریم کورٹ میں دائر

شائع September 25, 2024
— فائل/فوٹو: ڈان
— فائل/فوٹو: ڈان

پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے خلاف ایک اور درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دی گئی۔

سینیئر سیاستدان افرسیاب خٹک کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ آرڈیننس آئینی تقاضوں کو پورا کیے بغیر جاری کیا گیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 آئین کے آرٹیکل 89 کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 173 (3) عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ قرار دیتا ہے، ترمیمی آرڈیننس کا سیکشن 2 عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی بھونڈی کوشش ہے۔

درخواست کے مطابق ترمیمی آرڈیننس کا سیکشن 2 آئین کے آرٹیکل 173 (3) کے برخلاف ہے، عدلیہ کی آزادی پر حملہ آئین میں درج شہریوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ترمیمی آرڈیننس کو آئین کے آرٹیکل 89 کے برخلاف قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے، مزید کہا گیا ہے کہ ترمیمی آرڈیننس کے سیکشن 2 کو بنیادی حقوق سے متصادم قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ ترمیمی آرڈیننس 2024 کے تحت کمیٹی کی تشکیل کے آفس آرڈر کو معطل قرار دیا جائے اور درخواست کے زیر سماعت ہونے تک ترمیمی آرڈیننس سے پہلے والی کمیٹی کو بحال کیا جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز چوہدری احتشام الحق ایڈووکیٹ نے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست دائر کر دی تھی۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں سیکریٹری وزارت قانون، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکریٹری کابینہ کو فریق بنایاگیا ہے۔

درخواست گزار نے استدعا کی کہ ترمیمی آرڈیننس کو آئین سے متصادم قرار دیا جائے اور آرڈیننس کے تحت ہونے والے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دیا جائے جب کہ درخواست پر فیصلے تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کو معطل کیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ بھی قرار دے چکی کہ آرڈیننس صرف ہنگامی حالات میں ہی جاری ہوسکتا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آرڈینینس کو ذریعے عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، آرٹیکل 9 میں عوام کو ازاد عدلیہ سے رجوع کرنے کی آزادی ہے جب کہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیرٹرائل عوام کے آئینی حقوق میں شامل ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ آرڈینینس سے اضافی اختیارات دیے جارہے جس کا روٹین میں استعمال پارلیمنٹ کے اختیارات کو کم کررہا ہے، آرڈینینس سے آزاد عدلیہ کے اختیارات پر اثر پڑےگا، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر منفی اثر پڑےگا۔

اسی طرح لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کے خلاف علیحدہ علیحدہ درخواستیں قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے۔

واضح رہے کہ 20 ستمبر کو صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط بعد سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 نافذ ہو گیا۔

قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 منظور کیا تھا۔

اطلاعات ونشریات کے وزیر عطا اﷲ تارڑ نے کہا تھا کہ مفاد عامہ اور عدالتی عمل کی شفافیت کے فروغ کے لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈنینس 2024 نافذ کردیا گیا۔

ٹی وی پر نشر گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت کسی مقدمے میں عدالت عظمی کی جانب سے سنائے گئے فیصلے پراپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق چیف جسٹس آٖف پاکستان، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل کمیٹی کیس مقرر کرے گی، اس سے قبل چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں کا تین رکنی بینچ مقدمات مقرر کرتا تھا۔

بعد ازاں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 پر عملدرآمد کرتے ہوئے جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین خان کو 3 رکنی ججز کمیٹی میں شامل کرلیا گیا۔

رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے جاری آفس آرڈر کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سینیارٹی کے اعتبار سے پانچویں نمبر کے جسٹس امین الدین خان کو 3 رکنی ججز کمیٹی کے لیے نامزد کیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024