مولانا فضل الرحمٰن کے واضح انکار کے باوجود حکومت آئینی ترمیم کیلئے پُر امید
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے پیش کردہ مجوزہ آئینی پیکج کو ’مکمل طور پر مسترد‘ کرنے کے باوجود مخلوط حکومت ترمیم لانے کے لیے پُر امید ہے، جس کے لیے انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت تیز کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر کی رہائش گاہ پر جے یو آئی (ف) کے سربراہ اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان اہم ملاقات ہوئی۔
اسد قیصر کی رہائش گاہ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے مجوزہ پیکج کو یکسر مسترد کر دیا ہے کیونکہ حکومت خود یہ کہہ رہی ہے کہ ان کا کوئی مسودہ ہے ہی نہیں لیکن جو مسودہ فراہم کیا گیا وہ کیا تھا؟۔
ان کا کہنا تھا مسودہ کسی کو دیا گیا اور کسی کو نہیں دیا گیا یہ کیا کھیل تھا؟ لیکن جو کچھ بھی ہمیں دیا گیا ہمارے لیے وہ کسی لحاظ سے بھی قابل قبول نہیں تھا، اگر ہم اس ترمیم پر حکومت کا ساتھ دیتے تو قوم کے ساتھ اس سے بڑی اور کوئی خیانت نہیں ہو سکتی تھی۔
یاد رہے کہ حکومت نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جو مسودہ شیئر کیا جا رہا ہے وہ حتمی دستاویز نہیں بلکہ صرف ایک ’ورکنگ پیپر‘ ہے۔
ملاقات کے بعد اسد قیصر نے صحافیوں کو بتایا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایف نے پارلیمنٹ میں تمام معاملات پر ہم آہنگی کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجوزہ پیکیج کو حکمران جماعتوں کے قانون سازوں کے ساتھ بھی شیئر نہیں کیا گیا تھا۔
جے یو آئی ایف اور پی ٹی آئی کے درمیان واضح معاہدے کے باعث وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ایک بار پھر مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرنے پر مجبور ہوئے تاکہ انہیں اس معاملے پر حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے پر آمادہ کیا جا سکے۔
حکومت پُر امید
وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ’آئینی پیکج‘ پر ’ایک پیج‘ پر ہیں، مجوزہ پیکج کے تحت سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 23 اور چیف جسٹس کی مدت ملازمت 3 سال مقرر کی جانی تھی اور آئینی عدالت کا قیام بھی اس میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ متفقہ دستاویز دوبارہ پیش کی جائے گی اور جے یو آئی (ف) ترامیم سے قبل قائل ہو جائے گی۔
وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ وسیع مشاورت جاری ہے لیکن اس معاملے کی وجہ سے کسی کو این آر او حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تاہم ترامیم پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے مشاورت جاری رہے گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسودہ پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئیٖ اور دیگر جماعتوں کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا اور تمام پہلوؤں پر بات کی گئی تھی۔
مزید برآں، وزیر اطلاعات نے ڈان کو بتایا کہ آئینی پیکج کی تجاویز پر غور کرنے کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس چند روز میں بلایا جائے گا، انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کو بھی آن بورڈ لیا جا رہا ہے۔
مسٹر تارڑ نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ مجوزہ پیکج کہیں اور تیار کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا کہ یہ پیکج وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی رہنمائی میں وزارت قانون کے دفتر میں تیار کیا گیا تھا۔
توسیع کا کوئی منصوبہ نہیں
مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع یا اعلیٰ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ محض میڈیا میں گردش کرنے والی قیاس آرائیاں ہیں اور حکومت کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی بلکہ یہ اگلے مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں اتحادی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔
لیگی سینیٹر نے یقین ظاہر کیا کہ مولانا فضل الرحمٰن متفق ہوں گے اور جے یو آئی ف اور دیگر جماعتوں کے تعاون سے پارلیمنٹ سے ترامیم منظور کرائی جائیں گی۔
سینیٹر صدیقی نے ڈان کو بتایا کہ اے این پی اور ایم کیو ایم پاکستان سمیت تمام جماعتوں سے مشاورت جاری ہے اور حکومت ان کے مطالبات مانے گی۔