آئینی ترمیم کے معاملے پر قومی اسمبلی کا اجلاس کل دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی
آئینی ترمیم کے معاملے پر وفاقی کابینہ کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس کئی گھنٹے التوا کا شکار ہونے کے بعد 12 گھنٹے بعد شروع ہوا اور اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس کل دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا جبکہ وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی کل تک موخر کردیا گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس آج شام 4 بجے ہونا تھا لیکن بعد ازاں یہ تاخیر کا شکار ہو گیا اور اب یہ چار گھنٹے بعد رات 8 بجے موخر کردیا لیکن 8 بجے بھی اجلاس شروع نہ نہ ہو سکا۔
رات 11 بجے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا لیکن چند منٹ تک جاری رہنے والے اجلاس کو اسپیکر قومی اسمبلی نے کل دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔
اس سے قبل وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا سہ پہر تین بجے ہونے والا اجلاس بھی تاحال شروع نہ ہو سکا۔
کابینہ کا اجلاس دن 11 بجے طلب کیا گیا تھا لیکن پھر اسے تین بجے تک موخر کردیا گیا تھا لیکن یہ شام پانچ بجے تک شروع نہ ہو سکا۔
بعدازاں وفاقی کابینہ کا اجلاس کل تک موخر کر دیا گیا۔
اس سے پہلے ایوان بالا سینیٹ کا اجلاس بھی تاخیر کا شکار ہوا تھا اور 4 بجے شروع ہونے والا اجلاس 7 بجے تک موخر کردیا گیا تھا لیکن قومی اسمبلی اجلاس میں تاخیر کے سبب سینیٹ کے اجلاس کو بھی رات 10 بجے تک موخر کردیا گیا تھا۔
تاہم بعد میں سینیٹ کے اجلاس کو بھی پیر کی دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے نمبر پورے نہیں تھے اس لیے اجلاس ملتوی ہوا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے مولانا فضل الرحمٰن سے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔
یاد رہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپنے ارکان کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دے دیا، قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے ارکان قومی اسمبلی کو مراسلہ جاری کردیا، مراسلے میں اراکین قومی اسمبلی کو آج کے اجلاس میں حاضری یقینی بنانےکی ہدایت کی گئی ہے۔
دوسری جانب سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے بھی ارکان کو مراسلہ لکھتے ہوئے اراکین کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت دے دی ہے۔
آئینی ترمیم کی منظوری اور عدم منظوری کے حوالے سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اسی سلسلے میں گزشتہ روز رات گئے بلاول بھٹو اور محسن نقوی نے فضل الرحمن سے طویل ملاقات میں آئینی ترمیم پرمشاورت کی تھی۔
مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر حکومتی وفد کی ملاقات کے بعد پی ٹی آئی وفد بھی پہنچ گیا تھا جس کی قیادت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے کی جبکہ وفد میں اسد قیصر، عمر ایوب، شبلی فراز اور صاحبزاہ حامد رضا شامل تھے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی وفد نے بھی ملاقات میں آئینی ترمیم سے متعلق بات چیت کی تھی لیکن پی ٹی آئی رہنماؤں نے صحافیوں سے بات چیت سے گریز کیا تھا۔
حکومت کو قومی اسمبلی میں مزید 13 ارکان کی حمایت درکار
آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی ارکان اسمبلی کی منظوری درکار ہے، یعنی 336 کے ایون میں سے تقریباً 224 ووٹ درکار ہیں، تاہم ابھی تک ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں کم از کم ایک درجن ووٹوں کی کمی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے حکومتی بینچوں پر 211 ارکان موجود ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) کے 110، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68، ایم کیو ایم پاکستان کے 22 ارکان شامل ہیں۔
اس کے علاوہ حکومتی ارکان میں استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے 4،4، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے 1،1 رکن بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر 101 ارکان ہیں، سنی اتحاد کونسل کے 80 اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان کے ساتھ 88 ارکان اسمبلی، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے 8 جب کہ بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن موجود ہے۔
سینیٹ میں حکومت کو مزید 9 ارکان کی حمایت درکار
آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو سینیٹ میں 63 ووٹوں کی ضرورت ہے تاہم ایوان بالا میں حکومتی بینچز پر 54 ارکان موجوود ہیں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 24، مسلم لیگ (ن) کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 اور ایم کیو ایم کے 3، ارکان شامل ہیں، یعنی حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے مزید 9 ووٹ درکار ہوں گے۔
اعلیٰ ایوان کی اپوزیشن بینچز پر پی ٹی آئی کے17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینٹر ہے، اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بینچز پر 31 سینیٹرز موجود ہیں۔