اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں نئی بستی کی تعمیر کی منظوری دے دی
ایک طرف غزہ میں قابض اسرائیلی فورسز کی بمباری اور ظلم و بربریت جاری ہے تو دوسری جانب اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مقام پر نئی بستی کے قیام کی منظوری دے دی۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسرائیل کے دائیں بازو کے وزیر خزانہ نے بدھ کو ایک بیان کہا کہ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں بیت لحم کے قریب یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی جگہ پر ایک نئی بستی کی منظوری دے دی ہے۔
وزارت دفاع میں شہری امور کے سربراہ بزالیل اسموترچ نے کہا کہ ان کے دفتر نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور گُش ایتزیون میں نہال ہیلیٹز کی نئی بستی کے لیے ایک منصوبہ شائع کیا ہے۔
1967 سے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی تمام بستیوں کو اسرائیل کی اجازت سے قطع نظر بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے۔
اس بستی میں رہنے والے سموتریچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ کوئی بھی اسرائیل اور صیہونی مخالف فیصلہ بستیوں کی تعمیر کو نہیں روک سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر فلسطینی ریاست کے قیام کے خطرناک منصوبے کے خلاف لڑتے رہیں گے۔
اسرائیلی آبادکاری کے مخالف گروپ پیس ناؤ نے اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک ایسے علاقے پر ’بڑے پیمانے پر حملہ‘ قرار دیا جو اپنے قدیم علاقوں اور جدید ترین آبپاشی کے نظام کے لیے مشہور ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران، مغربی کنارے میں درجنوں غیر مجاز بستیاں ابھر کر سامنے آئی ہیں اور مشرقی یروشلم کو چھوڑ کر تقریباً 4لاکھ 90ہزار اسرائیلی آباد کار اس علاقے میں تقریباً 30 لاکھ فلسطینیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی حکومتی اتحاد میں شامل انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے بستیوں کی توسیع میں تیزی لانے پر زور دیا ہے۔
نئی بستیوں کی تعمیر کی منظوری ایک ایسے موقع پر دی گئی جب ایک روز قبل ہی انتہاپسند نظریات کے حامل اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر اسرائیل کے الحاق کیے گئے مشرقی یروشلم میں واقع الاقصیٰ مسجد کے احاطے میں دعا کے لیے ہزاروں یہودیوں کے اجتماع میں شریک ہوئے تھے۔
یہودیوں کے لیے اس جگہ پر دعا مانگنے پر پابندی ہے اور اسرائیلی وزیر کے اس عمل کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔
نہال ہیلٹز بستی کی دیگر چار بستیوں کے ہمراہ ابتدائی طور پر رواں سال جون میں منظوری دی گئی تھی اور یہ بستی گش ایٹزیون اور یروشلم کے جنوب میں فلسطینی شہر بیت لحم کے درمیان واقع ہے۔
پیس ناؤ نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے جانے والے علاقے میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائیاں ناصرف فلسطینیوں کے مقامات کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہیں اور لوگوں کو ان کے قدرتی اور ثقافتی ورثے سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لیے سب سے زیادہ ثقافتی قدر کے حامل علاقے کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
یورپی یونین کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال اسرائیل نے مغربی کنارے میں 12 ہزار 349 گھروں کی تعمیر کا منصوبہ پیش کیا جہاں یہ 30سال میں گھروں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ بستیاں دو ریاستی حل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔