ڈاکٹراسمارٹ فون
وائٹر پیمپلونا نہ ہی ڈاکٹر ہیں اور نہ ہی آنکھوں کے ماہر۔ وہ آپ کی عینک کیلئے کوئی نمبر دینے سے بھی قاصر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ پُر اُمید ہیں کہ وہ آنکھوں کے علاج کی عالمی 75 ارب ڈالر مارکیٹ کو ہلاکر کر رکھ دیں گے۔
انہوں نے آئی نیٹرا نامی ایک کمپنی بنائی ہے جہاں پلاسٹک سے بنے آنکھوں کے ڈیلے، اور تھری ڈی پرنٹنگ مشینیں موجود ہیں ۔ یہ یہ تھری ڈی پرنٹر ایسے نمونے تیار کرسکتے ہیں جو آپ کے سمارٹ فون سے جڑکر صرف ایک یا دو منٹ میں آپ کو بتاسکتے ہیں کہ آپ کو کس قسم کے عینک کی ضرورت ہے۔
اس ڈوائس کا نام، نیٹرا جی ہے جو آپٹکس اور سافٹ ویئر کا ملاپ ہے۔ ان دونوں کی مدد سے انہوں نے ایک طریقہ وضع کیا ہے جس میں اسمارٹ فون اور پلاسٹک سے بنی دوربین ( بائنوکیولر) کی مدد سے آنکھ میں انعطافی خرابی ( ریفریکٹو ایرر) کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ چند ڈالر کا یہ نسخہ اصل آٹو ریفریکٹر کے مقابلے میں بہت بہت سستا ہیں جن کی قیمت پانچ ہزار ڈالر تک ہوتی ہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اسے کوئی بھی استعمال کرسکتا ہے۔ اب تک تو صرف ڈاکٹر یا آنکھوں کے سند یافتہ ماہر ہی عینک تجویز کرتے تھے لیکن برازیل سے چند سال قبل امریکہ میں آنے والے سافٹ ویئر پروگرامر پیمپلونہ کے مطابق اب یہ سب کچھ بدلنے کے قریب ہے۔
' ہم استعمال کرنے والے کو یہ سہولت دے رہے کہ وہ ( آنکھ میں نقص) کی پیمائش خود کرسکے اور اس میں ڈاکٹر کا کردار محض ایک کوچ کی طرح ہوگا۔' انہوں نے کہا ۔
بے شک موبائل اور سمارٹ فونز اب سمارٹ ایپلی کیشنز کے ساتھ ساتھ ایسے تشخیصی آلات کے ساتھ آرہے ہیں جو بعض امراض میں ماہرین اور ڈاکٹروں کی اجارہ داری کو ختم کردیں گے جس میں ایک مثال نظر کی کمزوری یا خرابی ہے۔ امریکہ میں ڈاکٹر مرض کے حساب سے پیسے لیتےہیں بخار کا ڈاکٹر سستا تو کینسر کا اتنا ہی مہنگا ہوتا ہے۔ اسی لئے سمارٹ فونز کے ذریعے امراض کی تشخیص سے ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا تین فیصد حصہ بیماریوں کے
آئی نیٹرا کو بیس لاکھ ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری سلیکن ویلی کے ایک بڑے سرمایہ کار ونود کھوسلہ سے ملی ہے جنہوں نے ایک سال قبل ڈاکٹروں کو کہا تھا کہ وہ جو بھی کرتے ہیں وہ جادو ٹونہ ہے اور ان کی 80 فیصد تشخیص اور شناخت کا کام تو مشینیں کرتی ہیں۔
کھوسلہ کے علاوہ کئی ایسے پروجیکٹ ہے جو صحت کے سنجیدہ مسائل سے پر مبنی ہیں اوران میں سے ایک الائیوکور ہے جو سیل فون سے منسلک ہونے والے دل کے مانیٹر فروخت کرتے ہیں یہ آئی فون سے جڑتے ہیں۔ اسی طرح ایک سیل سکوپ ہے جس کو سمارٹ فون میں استعمال کرکے والدین بچے کے کان میں انفیکشن معلوم کرسکتے ہیں۔
نیٹرا سسٹم کا پروٹو ٹائپ یہ دیکھتا ہے کہ آپ کی آنکھ مخصوص دوری پر روشنی پر کتنا فوکس کرتی ہے۔ اس میں سرخ اور سبز لائنیں نظر آتی ہیں ان کی لوکیشن کی پیمائش کرکے یا ایپس آپ کی آنکھ میں فوکس کرنے کی خرابی کا پتا لگاتی ہے۔ اسے بصارت ( وژن) کا تھرمامیٹر کہہ سکتے ہیں۔
اسی ایپ کو استعمال کرتے ہوئے کوئی واربی پارکر جیسے سٹور سے آن لائن عینک کا آرڈر بھی دے سکتا ہے۔ جبکہ امریکہ میں آنکھ کے اسی معائنے کیلئے ڈاکٹر ایک سے سے ڈیڑھ سو ڈالر فیس لیتے ہیں اور بعض تو اپنی طرفسے چشمہ بھی فروخت کرتے ہیں۔
گزشتہ برس ایک کانفرنس میں پیمپلونہ نے جب اس ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا۔ تو آنکھوں کے ایک ڈاکٹر ڈومینک مائنو نے انڈسٹری کے نیوزلیٹر میں ایک کالم میں اپنے ساتھیوں کو لکھا کہ اب مشکل وقت آنے والا ہے۔
مائنو کا خیال ہے کہ ' نیٹرا اکثر وقت درست شناخت کرتا ہے۔' لیکن امریکہ میں موجود چالیس ہزار آپٹومیٹرسٹ آنکھ کی مجموعی صورتحال اور اس کے پیچیدگیوں کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔ لیکن ان کا خیال ہے کہ آپ اس سارے معاملے سے ڈاکٹر کو باہر نہیں نکال سکتے۔
امریکہ میں ڈاکٹرجب تک مریض کے پاس وزٹ نہ کرے یا اسے نہ دیکھے تب تک فیس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر امریکہ میں امراض کی شناخت کے قوانین بھی بہت سخت ہیں۔
لیکن انڈیا میں تقریباً تیرہ کروڑ سے زائد افراد کی نظر کمزور ہے یا اندھے پن کی جانب بڑھ رہے ہیں کیونکہ نہ تو ان کی رسائی ڈاکٹر تک ہے اور نہ ہی عینک تک اور وہاں نہ ہی امریکہ کی طرح طبی قوانین اتنے سخت ہیں۔ ایسے ممالک میں یہ ٹیکنالوجی کمال دکھاسکتی ہیں۔
لیکن یہ نئی موبائل کمپنی اپنی سہولیات کو اس طرح مارکیٹ کرسکتی ہیں کہ یہ مریضوں کی اجازت سے ایک حد تک ڈیٹا ڈاکٹروں اور دیگر اداروں کو فراہم کرسکتی ہے جس سے دونوں طبقوں کے درمیان نئی راہیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں