• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

اسلام آباد ہائیکورٹ: ملزمان کی نگرانی کی اجازت کا کیس، فیصلہ محفوظ

شائع June 26, 2024
—فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
—فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے دارالحکومت کی پولیس کی جانب سے جرم کے بعد مشتبہ افراد کی نگرانی کی اجازت دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منگل کو عدالت میں پیش ہوتے ہوکر اسلام آباد پولیس کے ڈائریکٹر لا طاہر کاظم نے کہا کہ گزشتہ ماہ نگرانی کے خلاف عدالت کے حکم کے بعد، سیلولر کمپنیوں نے معمول کی مجرمانہ تحقیقات کے لیے درکار انتہائی ضروری ڈیٹا کا اشتراک کرنا بند کر دیا ہے۔

وہ 30 مئی کے جج کے حکم کا حوالہ دے رہے تھے جہاں جج نے کہا کہ کسی بھی ریاستی اہلکار کو شہریوں کی نگرانی کرنے کا اختیار نہیں ہے اور جو بھی ایسا کرے گا یا اس طرح کی کارروائیوں میں مدد کرے گا وہ جرم کا ذمہ دار ہوگا۔

فیصلے میں ٹیلی کام کمپنیوں اور سروس فراہم کرنے والوں کو اگلی سماعت تک پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ڈیٹا شیئر کرنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔

یہ حکم سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی جانب سے مبینہ طور پر ان پر مشتمل آڈیو لیکس کے خلاف دائر درخواستوں پر جاری کیا گیا تھا۔

عدالت کے حکم کی تعمیل میں، سیلولر کمپنیوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کال ڈیٹیل ریکارڈز (سی ڈی آر) کا اشتراک روک دیا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق، جج کے حکم کے نتیجے میں کئی تحقیقات رک گئیں کیونکہ وہ مجرموں، دہشت گردوں اور اغوا کاروں کا سراغ لگانے کے لیے سی ڈی آرز پر انحصار کرتے ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے منگل کو درخواستوں پر دوبارہ سماعت شروع کی تو انہوں نے کہا کہ جاسوسی کرنا اس کے بعد کے واقعات سے مختلف ہے، تاہم، سیلولر کمپنیاں دونوں منظرناموں کو یکساں طور پر دیکھ رہی ہیں۔

دارالحکومت پولیس کے ڈائریکٹر لا طاہر کاظم نے مزید بتایا کہ کسی بھی واقعے کے بعد ٹیلی کام کمپنیوں سے تکنیکی ڈیٹا حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ اسلام آباد پولیس تکنیکی نگرانی کرتی ہے یا کالیں ریکارڈ کرتی ہے۔

جب جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ کیا پولیس تکنیکی ڈیٹا اکٹھا کرنے سے پہلے وارنٹ طلب کرتی ہے، تو طاہر کاظم نے جواب دیا کہ فورس ہمیشہ واردات کے بعد کے منظرناموں میں ڈیٹا کی درخواست کرتی ہے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے دہشت گردوں کی معلومات کے حوالے سے حکم نہیں دیا، تاہم عدالت کو آگاہ کرنا ہو گا کہ کس قوانین کے تحت نگرانی کی جا رہی ہے کیونکہ وفاقی حکومت مسلسل اپنا مؤقف تبدیل کر رہی ہے۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) بیرسٹر منور اقبال دگل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے سی ڈی آر اور دیگر ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے ٹیلی کام کمپنیوں سے رابطہ کرنے کا اختیار قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دے دیا ہے۔

منور اقبال دگل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ وزارت داخلہ نے انٹیلی جنس ایجنسیوں، آئی ایس آئی اور انٹیلیجنس بیورو کو ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اجازت دی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ وزاقرت داخلہ ایسی ہدایات کیسے جاری کر سکتی ہے اور بغیر وارنٹ کے کسی فرد کی لائیو لوکیشن کیسے شیئر کی جا سکتی ہے؟

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے وکیل نے بتایا کہ ان کے مؤکل نے نہ تو کسی ایجنسی کو کال ریکارڈ کرنے کی اجازت دی اور نہ ہی وہ کوئی نگرانی کرتی ہے۔

وکیل نے مزید کہا کہ پی ٹی اے صرف ایک ریگولیٹری ادارہ ہے۔

ٹیلی کام کمپنیوں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ٹیلی کام آپریٹرز کو لائسنس دینے کے لیے ٹیکنیکل ڈیٹا شیئر کرنا پی ٹی اے کی شرائط میں سے ایک ہے اور وہ ریگولیٹر کے کہنے پر مطلوبہ ٹیکنیکل سسٹم لگانے کے پابند ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024